اور عملى طور پر اسى پہ كاربند نظر آتے ہيں ليكن يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ انہوں نے صرف اسى انداز پر اكتفا نہيں كيا اور نہ ہى تفسير ترتيبى كو تفسير موضوعى كى راہ ميں ركاوٹ تصور كيا ہے _ پس اس كتاب پر دوسرى نظر دوڑائي جائے تو اسے تفسير موضوعى بھى كہا جاسكتاہے كيونكہ اس اعتبار سے بھى كوئي كمى نظر نہيں آتي_
تفسير مأثور عقلي:
تفسير مأثور جس كى بنياد سنت نبوى (ص) اور اہل بيتعليهالسلام كى احاديث ہيں يہ بھى اسلام كى ابتدائي صديوں كا ايك قابل قدر ورثہ ہے _يہ سرمايہ اپنى جگہ عظيم المرتبت ہے_ بعض محققين كا يہ نكتہ نظر رہاہے كہ مصحف شريف كے اصلى مخاطبين سركار دو جہاں پيامبر گرامى اسلام (ص) اور آئمہ معصومين (عليہم السلام ) ہيں _ پس ان محققين نے قرآن كريم كے ہم وزن كلمات يا احاديث سے آنكھيں نہ چرائيں بلكہ اپنا تمام تر ہم و غم اس طرح كى روايات كى تلاش كو قرار ديا _ يہى وجہ ہے كہ اس طرح كى تفاسير قاريان قرآن كو اطمينان بخش لگتى ہيں _ اس تفسير كے وسيع النظر مفسر نے دوسرے علماء كى طرح روايات پر انحصار كے ساتھ ساتھ عقل سے استفادہ كو يہاں قابل اجتماع سمجھا ہے_ پس روش نگارش كو يوں منظم كيا ہے كہ عقل و نقل دونوں كہيں عدم التفا ت كا شكار نہ ہوجائيں _ اس تفسير ميں ايك اور تخليقى نوعيت كا كام كيا گيا ہے وہ يہ كہ مفسر نے ہر آيت سے مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ماقبل اور مابعد كى آيات بلكہ تمام آيات كے تمام پہلوؤں پر بھى گہرى نظر ركھى ہے _ پس جزوى مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ان كو كلى مفاہيم كے ساتھ مرتبط كيا ہے _ گويا قرآنى آيات كے جہاں باطن كى طرف نظر دوڑائي ہے وہاں ظاہر كو نظر انداز نہيں كيا _
چند اہم نكات:
۱)واضح رہے كہ آيات كا ترجمہ ہم نے حجة الاسلا م والمسلمين جناب سيد ذيشان حيدر جوادى صاحب كے قرآن حكيم كے ترجمہ سے انتخاب كيا ہے _ لہذا اگر كہيں آيات كے تفسيرى مطالب ميں اختلاف رائے موجود ہو تو يہ تفاوت فطرى نوعيت ہوگا_
۲)ہر آيت كے آخر ميں اور كتاب كے آخر ميں اشاريوں كا نظام اردو حروف تہجى كى ترتيب سے مرتب كيا گيا ہے _ مذكورہ انڈكسز ميں عناوين دو طرح كے ہيں ايك اصلى عنوان اور پھر ہر اصلى عنوان كے ذيل ميں فرعى عناوين ہيں _ پورى كتاب ميں فرعى عناوين كو البتہ حروف تہجى كى ترتيب سے تحرير نہيں كيا گيا _