(جسے میرے پروردگار نے مؤمنین کے لئے تیارکیاہے) میں رہنا چاہتا ہے تو میرے بعدعلی (ع)اور اس کے جانشینوں کی سرپرستی کو قبول کرےں نیز میرے بعد ان پیشواؤں کی اقتداء کرےں ۔کیونکہ وہی میرے اہل بیت وعترت ہیں اور میری طینت سے خلق کیاگیا ہے اور یہ فہم ودرک اور علم کی نعمت سے نوازے گئے ہیں اورمیری امت میں سے جوان کے فضائل کے منکر ہو ان پرغضب ہو کیونکہ خدا نے میری رسالت کا صلہ ان سے دوستی اور محبت رکھنے کو قرار دیا ہے ۔ لہذا جوان کے فضائل اور منزلت کا منکر ہوگا اسے میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔
تحلیل:
اس حدیث میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے بشر کی ہدایت اور ہلاکت و گمراہی سے نجات کاذریعہ واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے یعنی بشر یا محب اہل بیت ہے یادشمن اہل بیت ۔ اگر دنیا میں عزت ،شرف اور ابدی زندگی میں آسائش و راحت کا خواہاں ہے تو اہل بیت سے محبت کرنی ہوگی اور ان کی سیرتکو اپنی روزمرہ زندگی کے لئے نمونہ ومعیار قرار دےنا ہوگا،کیونکہ زندگی کے اصول وضوابط کاملاک اور معیار اہل بیت ہے ان کی سیرت طیبہ سے ہٹ کر کوئی شخص جتنی بھی زحمت اور مشقت اٹھائے بے فائدہ اورفضول ہے ۔ پس اس حدیث سے بھی اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ لگاسکتے ہیں یعنی حضور کی طرح جینا اور مرنا، جنت کا حصول حضور کی شفاعت اور عذاب جہنم سے نجات سب اہل بیت کی محبت اور اطاعت سے وابستہ ہے۔