ب۔غلط پروپگنڈے
اہل بیت سے دشمنی اور بغض رکھنے کے اسباب میںسے دوسرا سبب منفی تبلیغ ہے جسے قدیم الایام سے قرآن وسنت اور اسلام کے مخالفین نے کبھی بنی امیہ کی شکل میں اور کبھی بنی عباس کی شکل میں پیغمبراکرم (ص)کے رحلت پاتے ہی اہل بیت کے خلاف شروع کی جس کے نتیجہ میں بہت سارے افراداہل بیت کی دوستی اور محبت کرنے سے محروم رہے۔ یعنی پیغمبر اکرم (ص)کے وفات پاتے ہی مسلمانوں اور اہل بیت کے درمیان دوری اور جدائی شروع ہوگئی اگرچہ پیغمبراکرم (ص)کے دور میں کفار اور مشرکین نے مسلمانوں کو پیغمبراکرم (ص)اور قرآن واسلام سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن پیغمبر اکرم (ص)نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا مگرجب پیغمبراکرم (ص)دنیا سے چل بسے تو کفار اور مشرکین نے موقع کوغنیمت سمجھ کر مسلمانوں اور اصحاب میں سے ضعیف الایمان افراد کو ورغلانا اور پروگرام کے مطابق لاشعوری طور پراختلاف ڈالنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے نہ صرف اہل بیت سے محبت اور دوستی کرنا چھوڑ دیا بلکہ اہل بیت کو اپنا دشمن قراردینا شروع کیا جس کی دلیل آج فریقین کی کتابوں میں واضح الفاظ میں موجود ہے یعنی سوائے امام زمانؑ کے باقی سارے اہل بیت کے ساتھ امت مسلمہ نے برا سلوک کیا اہل بیت میں سے کوئی ایک بھی موت طبیعی سے دار دنیا سے نہیں گیا بلکہ ہرقسم کے مظالم ان پر ڈھائے گئے اور شہید کیا گیا ۔لہذا آج مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اہل بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور احادیث نبوی(ص) کو بالائے طاق رکھ کر یہودیوں کے دئیے ہوئے نقشے کے مطابق لوگوں کو اہل بیت سے دور کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اوراہل بیت کے فضائل بیان کرنے والے افراد کو قتل کرناشرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں جو یقیناً کفارومشرکین اوریہودیوں کا نقشہ ہے ورنہ فریقین کے علماء اور محققین نے اہل بیت سے متعلق آیات اور روایات کی روشنی میں ان کے دامن تھامنے کو باعث سعادت قرار دیا ہے۔ لہذا سارے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اہل بیت کا دامن تھام لیں تاکہ سعادت دنیا وآخرت سے محروم نہ رہے۔