7%

کرتاہے اورکہتاہے:اس قضیہ کے بعدآیہء شریفہ( إنّماولیّکم اللّٰه ) ۔۔۔ نازل ہوئی۔ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے:”حدثنامحمدابن الحسین قال:حدثنااحمدبن المفضل قال:حدثنااٴسباط عن السدّیعلی بن اٴبی طالب مرّ به سائل وهوراکع فی المسجد فاٴعطاه خاتمه(۱)

اس روایت میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حا لت رکوع میں اپنی انگشتری کو راہ خدا میں دینے کو بیان کیا گیا ہے۔

۳ ۔کیا”إنمّا“حصرپردلالت کرتاہے؟

فخررازی نے کہاہے کہ”إنّما“حصرکے لئے نہیں ہے۔اس کی دلیل خدا وندمتعال کایہ قول ہے کہإنّمامثل الحیاة الدنیاکماء انزلناہ من السماء۔۔۔ ۲ یعنی:زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا“

بیشک دینوی زندگی کی صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس کے لئے اور بھی دوسری مثالیں ہیں،اس لئے اس آیت میں ”إنّما“حصرپردلالت نہیں کرتاہے۔

جواب:

اول یہ کہ:جس آیہء شریفہ کو فخررازی نے مثال کے طورپرپیش کیاہے،اس میں بھی ”إنمّا“حصر کے طور پراستعمال ہواہے۔لیکن حصر دوقسم کاہے:حصرحقیقی میں مخاطب کے خیال اورتصور کی نفی کی جا تی ہے، مثلا اگر کوئی کہے :”زید کھڑا ہے “ اس کے مقا بلہ میں کہاجا تا ہے:

”إنّماقائم عمرو“یعنی کھڑا شخص صرف عمروہے نہ زید۔ اس جملہ کامقصد یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کھڑے انسان عمرومیں منحصرقراردئے جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ مقابل کے اس تصور کو زائل کیاجائے کہ زیدکھڑاہے اوراسے یہ سمجھایاجائے کہ صرف عمروکھڑاہے۔

____________________

۱۔تفسیرطبری ،ج۶،ص۱۸۶،دار المعرفة،بیروت

۲۔سورئہ یونس/۲۴