جواب:
اول یہ کہ حضرت علی علیہ السلام بہت سے دلائل کے پیش نظر پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی میں بھی ولی وسر پرست تھے۔لیکن یہ سر پرستی جانشینی کی صورت میں تھی۔یعنی جب بھی پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم نہیں ہوتے تھے،علی علیہ السلام آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کے جانشین ہوا کرتے تھے۔حدیث منزلت اس کا واضح ثبوت ہے اس طرح سے کہ وہ تمام منصب و عہدے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے تھے ،وہ سب حضرت علی علیہ السلام کے لئے پیغمبر اکرم)ص)کی نسبت سے اس حدیث کی روشنی میں ثابت ہو تے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا:( إخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں تم میرے جانشین ہو“۔یہ خلافت کوہ طور پر جانے کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے ،جیساکہ محققین اہل سنت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) ا س بناء پرحضرت علی علیہ السلام پیغمبراکرم (ص)کے جانشین تھے۔
دوسرے یہ کہ:فرض کریں کہ یہ ولایت کسی دلیل کی وجہ سے پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت نہیں ہے تواس صورت میں پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کی حیات کے بعد آیہء ولایت کا اطلاق مقید ہو گااوراس دلیل کی بناپریہ ولایت پیغمبراسلام (ص)کی رحلت کے وقت سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہو جا ئے گی۔
۱۳ ۔کیا حضرت علی (علیہ السلام) کوآیہء ولایت کے پیش نظرچوتھا خلیفہ جاناجاسکتاہے؟
فرض کریں آیہء شریفہ علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ بات حضرت علی(علیہ السلام)سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ اجماع اورشوریٰ کی بناپرپہلے ہم ان خلفاء کی خلافت کے قائل ہوں گے اور پھر ان خلا فتوں کے بعد آیہء ولایت پر عمل کریں گے جوحضرت(ع)کی امامت بیان کرنے والی ہے۔
_____________________
۱۔شرح مقاصد،تفتازانی ،ج۵،ص۲۷۶،منشورات الشریف الرضی