7%

ہوئی ہیں،جن میں ”صادقین“سے مرادکے بارے میں ابوبکروعمریا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کو لیا گیا ہے۔البتہ یہ روایتیں سندکے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ابن عساکرنے ضحاک سے روایت کی ہے کہ:( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال:مع ابی بکروعمراصحابهما (۱)

آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے ابوبکر،عمراوران کے اصحاب کا قصد کیا گیا ہے ۲ ۔طبری نے سعیدبن جبیرسے ایک اورروایت نقل کی ہے کہ”صادقین“سے مراد ابوبکروعمرہیں۔(۲)

ان احادیث کاجواب:

پہلی حدیث کی سندمیں جویبربن سعیدازدی ہے کہ ابن حجرنے تہذیب التہذیب(۳) میں علم رجال کے بہت سارے علما،جیسے ابن معین،ابن داؤد،ابن عدی اورنسائی کے قول سے اسے ضعیف بتا یاہے،اورطبری(۴) نے اسی روایت کوضحاک سے نقل کیاہے کہ اس کی سندمیں بھی جویبرہے۔

دوسری روایت کی سندمیں اسحاق بن بشرکاہلی ہے کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں(۵) ابن ابی شیبہ،موسی بن ہارون،ابوذرعہ اوردارقطنی کی روایت سے اسے جھوٹا اور حدیث روایت سے اسے جھوٹااورحدیث جعل کرنے والابتایاہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کے بعدکہ ہم نے خود آیہء شریفہ اوراس کے شواہد سے جان لیاکہ آیت میں ”صادقین“ سے مرادوہ معصوم ہیں جن کے ساتھ ہونے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے اتفاق نظر سے معصوم نہ ہووہ اس آیت)صادقین کے دائرے) سے خارج ہے۔

____________________

۱۔تاریخ مدینةدمشق،ج۳۰،ص۳۱۰دارالفکر

۲۔جامع البیان،ج ۱۱،ص۴۶

۳۔تہذیب التہذیب، ج۲ص۱۰۶دارالفکر۔

۴۔جامع البیان،ج۱۱،ص۴۶

۵۔میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۸۶،دارالفکر