14%

”إنّما“حصرکا فائدئہ دیتا ہے

جیساکہ ہم نے آیہء ولایت کی تفسیرمیں اشارہ کیاکہ علمائے لغت وادبیات نے صراحتاًبیان کیاہے لفظ”إنّما“حصرپردلالت کرتاہے۔لہذااس سلسلہ میں جوکچھ ہم نے وہاں بیان کیااس کی طرف رجوع کیاجائے۔اس سلسلہ میں فخررازی کے اعتراض کاجواب بھی آیہ ولایت کے اعتراضات کے جوابات میں دے دیاگیاہے۔

آیہء تطہیرمیں ارادے سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی

آیہء شریفہ کے بارے میں بحث کادوسراپہلویہ ہے کہ:آیہء شریفہ میں جوارادہ ذکر کیاگیاہے،اس سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔خداوندمتعال کے ارادے دوقسم کے ہیں:

۱ ۔ارادہ تکوینی:اس ارادہ میں ارادہ کامتعلق اس کے ساتھ ہی واقع ہوتاہے،جیسے، خداوندمتعال نے ارادہ کیاکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام پرآگ ٹھنڈی اورسالم)بے ضرر)ہو جائے توایساہی ہوا۔

۲ ۔ارادہ تشریعی:یہ ارادہ انسانوں کی تکالیف سے متعلق ہے۔واضح ر ہے کہ اس قسم کے ارادہ میں ارادہ اپنے مراداورمقصودکے لئے لازم وملزوم نہیں ہے۔خداوندمتعال نے چاہاہے کہ تمام انسان نماز پڑھیں، لیکن بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔تشریعی ارادہ میں مقصود اور مراد کی خلات ورزی ممکن ہے، اس کے برعکس تکوینی ارادہ میں ارادے کی اپنے مراد اور مقصود سے خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔

اس آیہ شریفہ میں ارادے سے مراد ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی اور اس کے معنی یہ ہے کہ:خداوند متعال نے ارادہ کیاہے کہ اہل بیت)علیہم اسلام)کو ہرقسم کی ناپاکی من جملہ گناہ و معصیت سے محفوظ رکھے اورانھیں پاک و پاکیزہ قراردے۔