7%

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ