جواب
جملہء( ليذهب عنکم الرجس ) میں لفظ ”اذھاب ‘ ‘لفظ ” عن“ سے متعدی ہوا ہے۔ اس کا معنی اہل بیت سے پلیدی اور رجس کو دور رکھنا ہے اور یہ ارادہ پہلے سے موجود تھا اور اسی طرح جاری ہے،نہ یہ کہ اس کے برعکس حال و کیفیت اہل بیت میں موجود تھی اور خداوند متعال نے ان سے اس حال و کیفیت )برائی) کو دور کیا ہے۔ اسی طرح اس سلسلہ میں تطہیر کا معنی کسی ناپاک چیز کو پاک کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اہل بیت کے بارے میں اس کا مقصد ان کی خلقت ہی سے ہی انھیں پاک رکھنا ہے۔ اس آیہء کریمہ کے مانند( ولهم فیهاازواج مطهرة ) (۱) ” اور ان کے لئے وہاں)بہشت میں ) ایسی بیویاں ہیں جو پاک کی ہوئی ہوں گی“
”اذھاب “اور”تطھیر“کے مذکورہ معنی کا یقینی ہونا اس طرح ہے کہ اہل بیت کی نسبت خود پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف یقینی ہے اوریہ بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم ابتداء ہی سے معصوم تھے نہ یہ کہ آیہ تطہیر کے نازل ہونے کے بعد معصوم ہوئے ہیں۔جب آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مطلب اس طرح ہے اور لفظ ”اذھاب“ و ”تطھیر“ آپ میں سابقہ پلیدی اور نجاست کے موجود ہونے کا معنی نہیں ہے، اہل بیت کے دوسرے افراد کے بارے میں بھی قطعی طور پر اسی طرح ہونا چاہئے۔ ورنہ”اذھاب“ و ”تطھیر“ کے استعمال کا لازمہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خاندان کے بارے میں مختلف معنی میں ہوگا۔
تیسرا سوال
اس آیہء شریفہ میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ طہارت ، اہل بیت میں )آیہء تطہیر کے نازل ہونے سے پہلے) موجود تھی بلکہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ خدا وند متعال اس موضوع کا ارادہ کرے گا کیونکہ ”یرید“ فعل مضارع ہے اور مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
____________________
۱۔بقرہ/۲۵