جواب
اول یہ کہ:کلمہ ”یرید“ جو خداوند متعال کا فعل ہے، وہ مستقبل پردلالت نہیں کرتا ہے اور دوسری آیات میں اس طرح کے کا استعمالات اس مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ جیسے کہ یہ آیات:( یریدالله لیبین لکم ویهديکم سنن الّذین من قبلکم ) (۱) اور( والله یرید اٴن یتوب عليکم ) (۲)
اس وصف کے پیش نظر آیت کے معنی یہ نہیں ہے کہ خداوند متعال ارادہ کرے گا، بلکہ یہ معنی ہے کہ خداوند متعال بد ستورارادہ رکھتا ہے اور ارادہ الہیٰ مسلسل جاری ہے۔
دوسرے یہ کہ اس ارادہ کا پیغمبر اکرم (ص)سے مربوط ہونا اس معنی کی تاکید ہے، کیونکہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا نہیں تھا کہ پہلے تطہیر کا ارادہ نہیں تھا اور بعد میں حاصل ہواہے۔ بلکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم پہلے سے اس خصوصی طہارت کے حامل تھے اور معلوم ہے کہ آنحضرت (ص)کے بارے میں ”یرید“کا استعمال ایک طرح اور آپ کے اھل بیت کے لئے دوسری طرح نہیں ہوسکتا ہے۔
چوتھا سوال
احتمال ہے کہ ” لیذھب“ میں ”لام“ لام علت ہو اور ”یرید” کے مفعول سے مرادکچھ فرائض ہوں جو خاندان پیغمبرصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مربوط ہوں۔ اس حالت میں ارادہ تشر یعی اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خداوند متعال نے آپ اہل بیت سے مربوط خصوصی تکالیف اور فرائض کے پیش نظر یہ ارادہ کیا ہے تاکہ برائی اور آلودگی کو آپ سے دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس صورت میں آیت اہل بیت کی عصمت پر دلالت نہیں کرے گی۔
____________________
۱۔ سورہ نساء /۲۶
۲۔ سورہ نساء /۲۷