7%

جواب

پہلے یہ کہ: ” یرید“ کے مفعول کا مخدوف اور پوشدہ ہونا خلاف اصل ہے اور اصل عدم پوشیدہ ہو نا ہے۔ صرف دلیل اور قرینہ کے موجود ہونے کی صورت میں اس اصل کے خلاف ہونا ممکن ہے اور اس آیت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ : ”لےذھب“ کے لام کے بارے میں چند احتمالات ہیں ان میں سے بعض کی بنا پر ارادہ کا تکونےی ہونا اور بعض کی بنا پر ارادہ کا تشر یعی ہونا ممکن ہے لیکن وہ احتمال کہ جو آیت میں متعین ہے وہ ارادہ تکوینی سے ساز گار ہے۔ اس کی دلیل وہ اسباب ہیں جو ارادہ تکوینی کے اسبات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ہیں من جملہ یہ کہ ارادہ تشر یعی کا لازمہ یہ ہے اس سے اھل بیت کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، جبکہ آیہ ء کریمہ نے اھل بیت کی عظیم اور گراں بہا فضیلت بیان کی ہے جیسا مذکورہ احادیث اس کی دلیل ہیں۔

اس بنا پر آیہ شریفہ میں لام سے مراد’ ’ لام تعد یہ “ اور مابعدلام ”یرید“کا مفعول ہے۔ چنانچہ ہم قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ”یرید“کبھی لام کے ذریعہ اور کبھی لا م کے بغیر مفعول کے لئے متعدی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس قسم کے متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ہم یہاں پرا ن میں سے دو آیتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

۱ ۔( فلا تعجبک اٴموالهم ولااولادهم،إنّمایریداللهليعذبهم بهافی الحيوةالدّنیا ) ۔۔۔(۱) اور آیہ( ولا تعجبک اموالهم إنّمایریداللهاٴن يعذّبهم بها فی الدّنیا ) (۲) ۔ اس سورہ مبارکہ میں ایک مضمون کے باوجود ”یرید“ ایک آیت میں ” ان یعذبھم“ سے بلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے ذر یعہ متعدی ہوا ہے۔

____________________

۱۔ سور ہء توبہ/۵۵ ۲۔سورہ توبہ/۸۵