7%

اس کے علاوہ حدیث کی سند میں ” مالک بن حمزہ“ ہے کہ بخاری نے اپنی کتاب ” ضعفا“ میں اسے ضعیف راویوں کے زمرہ میں درج کیا ہے۔(۱)

اس کے علاوہ اس کی سند میں ” عبدالله بن عثمان بن اسحاق“ ہے کہ جس کے بارے میں ابن حجرنے عثمان کا قول نقل کیا ہے اور کہا ہے : میں نے ابن معین سے کہا: یہ راوی کیسا ہے؟ اس نے کہا : میں اسے نہیں پہچانتا ہوں اور ابن عدمی نے کہا : وہ مجہول اور غیر معروف ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر یہ حدیث کسی صورت میں مذکورہ احادیث کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

چھٹا سوال

ام سلمہ جب پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کرتی ہیں کہ: کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں؟ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: ” انت الیٰ خیر“یا ” انت علیٰ خیر“ ّاس کے معنی یہ ہیں کہ تمھیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تمھارے لئے دعا کروں ، کیونکہ تمھارے لئے پہلے ہی سے قرآن مجید میں آیت نازل ہوچکی ہیں اور جملہ ” انت علی خیر“ کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری حالت بہترہے۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ام سلمہ اہلبیت میں داخل نہیں ہیں۔

جواب

سیاق آیت کے بارے میں کی گئی بحث سے نتےجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ آیہ ء تطہیرکا سیاق اس سے پہلی والی آیتوں کے ساتھ یکسان نہیں ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ہیں۔

____________________

۱۔ م یز ان الاعتدال،ج۲،ص۳۲۵، دارالمعرفہ،بیروت