اس بات کا علم کہ خدا وندمتعال مستقبل میں اس نعمت کو عطا کرے گا ، دعا کے لئے مانع نہیں بن سکتا ہے،کیونکہ خدا وندمتعال ”اولواالباب“ کی دعا کو بیان کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :( ربّنا وآتنا ما و عدتنا علی رسلک و لا تخذنا يوم القیامة إنّک ولا تخلف الميعاد ) (۱) ” پرور دگار جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے وعدہ کیا ہے اسے ہمیں عطا کر اور روز قیامت ہمیں رسوانہ کر کیونکہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا “ ہم دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا وند متعال وعدہ خلافی نہیں کرتا اور مو منین کو دیا گیا وعدہ حتماً پور کرے گا ، پھر بھی اس سے اس طرح دعا کرتے ہیں۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اھل بیت کے حق میں دعا بھی اسی طرح ہے کہ طہارت اور عصمت الہیٰ اگر چہ انھیں حاصل تھی اور آئندہ بھی یہ نعمت ان کے شامل حال رہتی، لیکن یہ دعا اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ اھل بیت (ع) اس عظمت و منزلت پر فائز ہیں لیکن ہمیشہ اپنے کو خدا کا محتاج تصور کرتے ہیں اور یہ خدا وندمتعال ہے کہ جو ہر لمحہ عظیم اور گرانقدرنعمت انھیں عطا کرتا ہے۔
اس لئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا خواہ آیہ ء تطہیر نازل ہونے سے پہلے ہو یا اس کے بعد ، ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے ۔
آٹھواں سوال
انبیاء علیہم السلام کی عصمت وحی کے تحقط کے لئے ہے،انبیاء کے علاوہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کی عصمت کے قائل ہو ں؟
____________________
ا۔۷۱ سورہ آل عمران/۱۹۴