7%

ساتواں باب :

امامت آیہ ” علم الکتاب“ کی روشنی میں

( و یقول الّذین کفرو الست مرسلاً قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب )

سورہ رعد/ ۴۳

” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہدےجئے کہ ہمارے اور تمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔“

یہ آیہ شریفہ ان آیتوں میں سے ہے جن میں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک بڑی فضیلت بلکہ احتجاج(۱) کی روآیت کے مطابق سب سے بڑی فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے اس کے معنی میں مزید غور وخوض کیا جائے۔

اس آیت میں پہلے کفار کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دو گواہ ذکر کئے گئے ہیں ایک خدا وند عالم کی ذات اور دوسرے وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

آیت کی دلالت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بحث کو درج ذیل دو محوروں پر جاری رکھا جا ئے

۱ ۔ خداوندمتعال کی گواہی کس طرح سے ہے؟

۲ ۔من عندہ علم الکتابسے مراد کون ہے؟

____________________

۱-مصباح الھدایة،ص ۴۳