خدا وند عالم کی گواھی:
اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:
۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“
۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔
من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟
دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:
پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:
اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے
_____________________
۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲