انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟
انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟
انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔
حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:
ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں: