حقیقت میں علی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“
شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض
اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:
ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”انفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”ابنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔
اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!