تیسراباب:
امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی میں
( یا اٴیّها الّذین آمنوا اٴطیعوا اللَّه و اٴطیعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوه إلی اللّٰه و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰه و الیوم الاٴخر، ذلک خیر و اٴحسن تاٴویلاً ) (نساء/۵۹)
”اے صاحبان ایمان!اللہ کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمھیں میں سے ہیں پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلٹادواگرتم اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھنے والے ہو۔یہی تمھارے حق میں خیراورانجام کے اعتبارسے بہترین بات ہے۔“
خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ میں مومنین سے خطاب کیاہے اورانھیں اپنی اطاعت، پیغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔
یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ میں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے میں ہے کہ جوخداوندمتعال نے انھیں قرآن مجیدمیں نازل فرمایاہے اورپیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان احکام کولوگوں تک پہنچایاہے،جیسے کہ یہ حکم:( اٴقیمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة ) پیغمبر (ص)کے فرامین کی اطاعت دو حیثیت سے ممکن ہے :
۱ ۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں:
یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہیں جو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم پر بصورت وحی نازل ہوئے ہیں اورآنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم نے انھیں لوگوں کے لئے بیان فرمایاہے،لیکن جن مواقع پریہ اوامر”امرکم بکذااوانّہاکم من ہذا“)میں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںیااس چیزسے منع کرتاہوں)کی تعبیرکے ساتھ ہوں)کہ فقہ کے باب میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہیں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامر ونواحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نتیجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعت ہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہیں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بھی خداکی اطاعت ہوگی۔
۲ ۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حیثیت سے جاری کئے ہیں۔
یہ وہ احکام ہیں جوتبلیغ الہی کا عنوان نہیںرکھتے ہیں بلکہ انھیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرست اورحاکم تھے،جیسے جنگ وصلح نیزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سیاست کے سلسلہ میں جاری کئے جا نے والے فرامین۔