60%

مقدمہ

اللہ تعالیٰ کے نیک بندے زمین کی اس وراثت کے منتظر ہیں جس کا وعدہ خدا نے اپنے بندوں سے اس آیہ کریمہ میں کیا ہے:( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ ) (۱) ” اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔“

اسی کے مانند رسول اللہ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے:”اٴُبشرکم بالمهدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس وزلازل فیملاٴ الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً(۲)

”میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں جو میر ی امت کے درمیا ن اس وقت بھیجا جائے گا جب لوگوں کے درمیا ن اختلاف اور بے ثباتی کی کیفیت ہوگی،اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جورسے بھری ہوگی۔“

بعض لوگ اسی خیال میں مگن ہیں کہ انتظار کا مطلب تلخ حقیقت سے فراراور مستقبل کے خواب دیکھنا ہے کہ جب ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔

____________________

(۱)انبیاء/۱۰۵

(۲)مسند احمد بن حنبل ،ج/۳،ص/۳۹۳،ح/۱۰۷۴۶