5%

كے زمرے ميں آتى ہيں _ لہذا ان روايات كو جدل سے ہٹ كر كسى اور مورد ميں استدلال كے طور پر پيش نہيں كيا جاسكتا_

وہ مقدمات جنہيں استدلال جدلى ميں بروئے كار لايا جاتاہے انہيں استدلال برہانى كے مقذمات كى طرح صحيح اور حق قرار نہيں ديا جاسكتا_كيونكہ جدلى استدلال كے مقدمات سے صرف اس ليئے استفادہ كيا جاتاہے چونكہ وہ مخاطب كے نزديك مسلّم اور قابل قبول ہوتے ہيں _ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ مقدمات بذات خود بھى قابل قبول اور مسلم ہوں _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ حضرت امير المؤمنين نے يہ استدلال ان لوگوں كے سامنے كيا ہے جو آپ (ع) كى خلافت و امامت كو تسليم كرنے سے انكار كررہے تھے_ يعنى بجائے ان اموركے جو آپ (ع) كى امامت اور ولايت كى حقيقى ادلہ ہيں كہ آپ ''منصوب من اللہ'' ہيں ان امور سے استدلال كيا ہے جو مخالفين كے نزديك قابل قبول ہيں اور جن كى بناپر پہلے تين خلفاء كى خلافت قائم ہوئي ہے_ آپ كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس دليل كى بناپر تم لوگوں نے پہلے تين خلفاء كى خلافت قبول كى ہے اسى دليل كى بناپر ميرى خلافت تسليم كرو كيونكہ ميرى امامت '' بيعت امت ''اور ''شورى كے اتفاق و اجماع ''سے بالاتر درجات كى حامل ہے _

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں

حضرت امير المؤمنين نے اپنى خلافت كے ابتدائي ايام ميں معاويہ كو خط لكھا جس ميں اسے قتل عثمان اوراپنے ساتھ لوگوں كى بيعت كى اطلاع دى اور اسے كہا كہ وہ بھى شام كے سركردہ افراد كو لے آئے اور بيعت كرے آپ (ع) نے فرمايا: