انيسواں سبق :
ولايت فقيہ، كلامى مسئلہ ہے يا فقہى ؟
دوسرے باب ميں گزر چكاہے كہ'' امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فقہى مسئلہ ہےجبكہ اہل تشيع كے نزديك كلامى مسئلہہے _ اگر اہلسنت كى كلامى كتب ميںيہ مسئلہ مورد بحث قرار پايا ہے تو اس كا سبب يہ ہے كہ شيعوں نے اس مسئلہ كو بہت زيادہ اہميت دى ہے اور اسے كلامى مباحث ميں ذكر كيا ہے_ اس سبق كا اصلى محور اس بات كى تحقيق كرنا ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى ولايت اور امامت كى طرح ''ولايت فقيہ ''بھى ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہى بحث ہے اور اعتقادى و كلامى مباحث سے اس كا كوئي تعلق نہيں ہے؟
ہر قسم كا فيصلہ كرنے سے پہلے ضرورى ہے كہ كلامى مسئلہكى واضح تعريف اورفقہى مسئلہ سے اس كے فرق كى وضاحت كى جائے_ كلامى اور فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟ اسے پہچانا جائے تا كہ ولايت فقيہ كے كلامى يا فقہى مسئلہ ہونے كا نتيجہ اور ثمرہ ظاہر ہوسكے_
كسى مسئلہ كے كلامى يا فقہى ہونے كا معيار :
ابتدائے امر ميں ممكن ہے يہ بات ذہن ميں آئے كہ ايك مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا