امور ميں فقيہ كے اوامر و نواہى كى اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كے عمومى مسائل ميں ولايت كو عملى كرنے ميں فقيہ كى مدد كرنا واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كيلئے جائز ہے كہ فقيہ عادل كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو اپنے امور ميں حاكم بنا ليں؟ كيا ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت دوسرے فقہا پر بھى واجب ہے؟
لہذا قطعى طور پر مسئلہ ولايت فقيہ فقہى پہلوؤں كا حامل ہے_ اسى لئے علم فقہ ميں اس كى تحقيق ضرورى ہے_ ليكن ديكھنا يہ ہے كہ كيا اس ميں كلامى پہلو بھى ہيں يا نہيں؟
ولايت فقيہ كا كلامى پہلو:
ولايت فقيہ كا كلامى پہلو مسئلہ امامت كے ساتھ منسلك ہے_ كيونكہ مسئلہ ولايت فقيہ كو اگر اسى نظر سے ديكھا جائے جس نظر سے مسئلہ امامت كو ديكھا جاتا ہے تو اس كا كلامى پہلو واضح ہوجائے گا اور مسئلہ امامت كى طرح يہ بھى ايك كلامى بحث شمار ہوگا_ شيعہ بحث امامت كو كيوں كلامى مسئلہ سمجھتے ہيں؟ اس كا جواب يہ ہے كہ شيعہ اس پر فقہى نظر نہيں ركھتے_ اور فعل مكلفين كے حكم كے پس منظر ميں اسے نہيں ديكھتے -_شيعہ امامت كے متعلق اس طرح سوال نہيں كرتے كہ '' كيا مسلمانوں پر امام اور حاكم كا مقرر كرنا واجب ہے؟ ''كيا امام كى اطاعت واجب ہے؟ كيا مسلمانوں پر حكومت تشكيل دينا واجب ہے اور يہ كہ رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد كسى كو اپنے حاكم كے طور پر مقرر كريں_
امامت پر اس طرح كى نظر (اہلسنت كى نظر يہى ہے) اسے فقہى مسئلہ قرار ديتى ہے _ كيونكہ اس وقت بات مسلمانوں كے عمل اور ان كے حاكم مقرر كرنے پر ہوگى _ ليكن اگر اسے فعل خدا كے پس منظر ميں ديكھيں اور مسئلہ امامت كو مسئلہ نبوت اور ارسال رسل كى طرح خدا كا فعل قرار ديں _ اور يہ سوال كريں كہ كيا رحلت