خلاصہ:
۱) يہ بات واضح ہونى چاہيے كہ كيا ولايت فقيہ ايك فقہى مسئلہ ہے يا كلامي؟
۲)بعض كو يہ غلط فہمى ہوئي ہے كہ كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس پر عقلى دليل كا قائم كرنا ممكن ہو_
۳) كسى مسئلہ كے فقہى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہو _
۴)مسئلہ كلامى مبدا و معاد كے احوال سے بحث كرتا ہے_ لہذا اگر فعل خدا كے بارئے ميں بحث ہو ، تو وہ مسئلہ كلامى ہوگا_ اور اگر فعل مكلف كے متعلق ہو تو فقہى مسئلہ كہلائے گا_
۵)مسئلہ ولايت فقيہ فقہى اور كلامى دنوں پہلوؤں كا حامل ہے_ اور دونوں جہات سے قابل بحث و تحقيق ہے_
۶) اگر كوئي ولايت فقيہ كو اس لحاظ سے ديكھے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ كا مقرر كرنا اسى طرح خداوند عالم پر واجب ہے جس طرح رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد امام معصوم كا مقرر كرنا واجب ہے_تو يہ ولايت فقيہ كا كلامى پہلو ہے_
۷) امام خمينى نے ولايت فقيہ كے كلامى پہلو سے بھى بحث كى ہے _ اور معتقد ہيں كہ وہ عقلى ادلّہ جو ائمہ كى امامت پر قائم كى گئي ہيں ، زمانہ غيبت ميں ولايت اور حكومت كے ضرورى ہونے پر دلالت كرتى ہيں_
۸) اہميت كے لحاظ سے تمام كلامى بحثيں مساوى نہيں ہيں _ لہذا ولايت فقيہ كى اہميت بحث امامت و نبوت كى اہميت سے كمتر ہے_