قضاوت اور محجور و بے بس افراد كى سرپرستى يعنى امور حسبيہ ميں فقيہ عادل كى ولايت ''دليل معتبر شرعي''سے ثابت ہے_ قابل بحث نكتہ يہ ہے كہ كيا فقيہ كى سياسى ولايت يعنى مسلمانوں كے اجتماعى امور اور امر و نہى ميں فقيہ عادل كى ولايت ثابت ہے يا نہيں؟
ايسى ولايت كے اثبات كيلئے ہمارے پاس تين راستے ہيں_ مشہور اور متداول راستہ معصومين كى روايات سے تمسك كرنا ہے_
دوسرا راستہ دليل عقلى ہے جيسا كہشيعہ علماء نے بحث امامت ميں دليل عقلى سے تمسك كيا ہے_
تيسرا راستہ امور حسبيہ كے ذريعہ سے ولايت كا ثابت كرنا ہے_ امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت كو تمام فقہا قبول كرتے ہيں_ كيا امر و نہى اور حكومت ميں ولايت كو باب حسبہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے ثابت كيا جاسكتاہے_ ادلّہ روائي اور عقلى كو بيان كرنے سے پہلے اس تيسرى راہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_
فقيہ كى ولايت عامہ كا اثبات از باب حسبہ
پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ امور حسبيہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے ترك كرنے پر شارع مقدس كسى صورت ميں راضى نہيں ہے_ وہ ہر صورت ميں ان كے وجود اور ادائيگى كا خواہاں ہے_ امور حسبيہ كى سرپرستى كس كے ذمہ ہے؟ اس ميں دو بنيادى نظريئے ہيں_ تمام شيعہ فقہاء قائل ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ ان امور ميں ولايت ركھتا ہے اور قضاوت پر ولايت كى مثل امور حسبيہ كى سرپرستى بھى فقيہ عادل كے مناصب ميں سے ہے_ بہت كم شيعہ فقہاء ايسے ہيں جو فقيہ عادل كو اس منصب كيلئے منصوب قرارنہيںديتے اور امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت شرعيہ كے منكر ہيں_ منصب ولايت كے انكار كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ ان امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور تصرف كى اولويت كے بھى منكر ہيں _ كيونكہ ان كى نظر ميں ان امور ميں تصرف قدر متيقن كے