خلاصہ :
۱)ولايت ايك منصب ہے_ اور افراد كيلئے اس كا اثبات ''شرعى دليل ''كا محتاج ہے _ كيونكہ اصل يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا_
۲)فقط شرعى دليل كى وجہ سے ''اصل عدم ولايت''سے صرف نظر كيا جاسكتا ہے _ اور شرعى دليل كى دوقسميں ہيں_ نقلى و عقلي_
۳) شرعى دليل كے ذريعہ قضاوت اور امور حسبيہ جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات پر تقريبا تمام فقہاء متفق ہيں _ ''ولايت تدبيري'' يا ''سياسى امور ميں ولايت'' كے متعلق علماء ميں اختلاف ہے_
۴) فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كو ''امور حسبيہ كے باب ''سے بھى ثابت كيا جاسكتا ہے _
۵) دليل حسبہ مسلمانوں كے اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى حاكميت كى اولويت اور ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابي'' پر دلالت نہيں كرتى _
۶) ولايت فقيہ كى اہم ترين دليل روائي ،''توقيع امام زمانہ''(عجل اللہ فرجہ الشريف) ہے _
۷) اس روايت كے دو جملوں سے ''ولايت فقيہ ''پر استدلال كيا جاسكتا ہے _
۸) اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے اورجو اشكال كيا گيا ہے وہ قابل حل ہے _