5%

رجوع كرتے ہيں ياا ہل حل و عقد كے انتخاب كے ذريعہ لوگوں كے امور كى سرپرستى اس كے ہاتھ ميں دے دى گئي ہے تو دوسرے فقہا ء كا فريضہ ساقط ہوجاتا ہے _ بنابريں تمام جامع الشرائط فقہاء منصب ولايت كے حامل ہيں اور ايك فقيہ عادل كے امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لينے سے دوسرے فقہاء كى ذمہ دارى ختم ہوجاتى ہے _

دوسرے لفظوں ميں ہر فقيہ كے كسى امر ميں تصرف كا جواز اس بات كے ساتھ مشروط ہے كہ دوسراكوئي فقيہ اس كام ميں اپنى ولايت كو بروئے كار نہ لارہا ہو _ اس صورت ميں كسى قسم كا اختلال نظام لازم نہيں آتا _ اختلال نظام اس وقت لازم آتا ہے جب ولايت كے عہدہ پر فائز تمام فقہاء عملى اقدامات شروع كرديں_

ولايت فقيہ كى تائيد ميں مزيدروايات

ان تين روايات كے علاوہ جو اب تك ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے پيش كى گئي ہيں دوسرى روايات بھى ہيں جن سے استدلال كياگيا ہے البتہ دلالت اور سند كے لحاظ سے يہ اُن روايات كى مثل نہيں ہيں ليكن اس كے باوجود فقيہ كى ولايت عامہ كى تائيد كے عنوان سے ان سے تمسك كيا جاسكتا ہے _ ہم يہاں اختصار كے طور پر انہيں بيان كرتے ہيں _

۱_ صحيحہ قدّاح :

على ابن ابراهيم عن ابيه عن حماد بن عيسي، عن القدّاح (عبدالله بن ميمون)، عن أبى عبدالله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (ص) : '' مَن سلك طريقاً يطلب فيه علماً، سلك الله به طريقاً الى الجنّه و انّ العلماء ورثة الانبيائ،إنّ الانبياء لم يُورثُوا ديناراً و لا درهماً