خلاصہ :
۱) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_
۲) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _
۳) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _
۴)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _
۵) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _
۶) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_
۷) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_