فقيہ كى سياسى ولايت كا دفاع:
وہ نظريہ جو اسلامى معاشرہ كے اجتماعى اموركى تدبير كيلئے فقاہت كو شرط قرار نہيں ديتا اور فقيہ كى سياسى ولايت كو ضرورى نہيں سمجھتا درحقيقت بہت سے اہم نكات سے غفلت بر تنے كى وجہ سے وجود ميں آيا ہے_
اس نظريہ كى تحقيق اور تنقيد كيلئے درج ذيل نكات پر سنجيدگى سے غور و فكر كرنے كى ضرورت ہے_
۱_ كيا فقيہ كى سياسى ولايت كے قائلين كى نظرميں اس اجتماعى منصب كے حصول كى واحد علت اور تنہا شرط فقاہت ہے؟ يا اسلامى معاشرہ كى سياسى حاكميت كى ضرورى شروط ميں سے ايك شرط ''فقاہت'' ہے؟ جيسا كہ بعد والے سبق ميں آئے گا كہ دينى منابع ميں مسلمانوں كے امام كے جو اوصاف اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں ، ان ميں سے اسلام شناسى اور دين ميں تفقہ و سمجھ بوجھ اہم ترين خصوصيات ميں سے ہے_ عدالت ، شجاعت ، حسن تدبير اور معاشرتى نظام كے چلانے كى صلاحيت اور قدرت بھى مسلمانوں كے امام اور والى كى معتبر شرائط ميں سے ہيں_ اس اجتماعى ذمہ دارى اور منصب ميں مختلف اوصاف كى دخالت سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلامى معاشرہ كے سرپرست كيلئے فقط فقاہت كا ہونا كافى نہيں ہے تا كہ كہا جائے كہ صرف دين ميں تفقہ، معاشرتى نظام كوچلانے كى ضرورى صلاحيت پيدا نہيں كرتااور سياست اورمعاشرتى نظام كو چلانے كيلئے جزئيات كے ادراك كى خاص توانائي كى ضرورت ہے ، جبكہ فقاہت فقط احكام كليہ اور اصول كو درك كرسكتى ہے_
۲_ اگر چہ موجودہ سيكولر حكومتوں ميں سياسى اقتدار كے حاملين اجتماعى امور كى تدبير ، امن عامہ اور رفاہ عامہ جيسے امور كولبرل اصولوں اور انسانى حقوق كى بنياد پر انجام ديتے ہيں ليكن دينى حكومت دين كى پابند ہوتى ہے_ اور مذكورہ بالا اہداف كو شرعى موازين اور اسلامى اصولوں كى بنياد پرتأمين كرتى ہے_ بنابريں سياست اور اسلامى معاشرہ كى تدبير كو كلى طور پر عملى سياست ،عقل عملى اور فن تدبير كے سپرد نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايسى