ج : عقل ،تدبير ، قدرت ، امانت
مذكورہ بالا شرائط عقلائي پہلو كى حامل ہيں _ يعنى سرپرستى كا طبيعى تقاضا يہ ہے كہ انسان ان خصوصيات و شرائط كا حامل ہو اور لوگ ان صفات كو معاشرے كے منتظم كيلئے ضرورى سمجھتے ہيں_ آيات و روايات ميں بھى تاكيد كى گئي ہے كہ معمولى منصب پرفائز لوگوں كيلئے ان خصوصيات كا ہونا ضرورى ہے_
جبكہ معاشرہ كى امامت و رہبرى تو بہت بڑا منصب ہے_
ارشاد خداوندى ہے:
( ''لا تؤتوا السُفهائَ ا موالكم الّتى جعل الله لكم قياماً ) ''
ناسمجھ لوگوں كو اپنے وہ اموال نہ دو جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگى قائم كرركھاہے_(۱)
جب بادشاہ مصر سے حضرت يوسف نے كہا كہ مجھے وزير خزانہ بنادے تو اپنى دو خصوصيات ''علم اور امانت دارى ''كو ذكر كيا _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ معاشرہ كے رہبر كو ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_
( '' قال اجعلنى على خزائن الارض انّى حفيظ عليم'' ) (۲)
كہا مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردو ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھي_
حضرت شعيبكى بيٹى نے جب حضرت شعيب كے اموال كى سرپرستى كيلئے حضرت موسى كا تعارف كروايا تو آپ (ع) كى خصوصيات ميں سے ''قدرت و توانائي ''اور '' امين'' ہونے كا خاص طور پر تذكرہ كيا _ لہذا معاشرہ كے سرپرست كو بطريق اولى ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_
'' قَالَت إحدَاهُمَا يَاأَبَت استَأجرهُ إنَّ خَيرَ مَن استَأجَرتَ
____________________
۱) سورہ نساء آيت ۵_
۲) سورہ يوسف آيت ۵۵_