خلاصہ :
۱) اصل عدم ولايت اور اس كو ديكھتے ہوئے كہ ولى حقيقى فقط خدوند كريم كى ذات ہے_ ہر قسم كى ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ براہ راست يا بابلواسط تقرّر الہى ہے_
۲)فقيہ كى ولايت انتصابى كى بنياد پر سياسى نظام كے تمام اركان اپنى مشروعيت اور جواز ''ولايت فقيہ''سے اخذ كرتے ہيں _ يہ امر اس منصب كے اعلى مقام كى نشاندہى كرتا ہے_
۳)صرف عوام كى را ے كسى شخص كو قانون گذارى اور امر و نہى كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتى _
۴)سياسى صاحبان اقتدار كى مخالفت كى دو قسميں ہيں ، مخالفت عملى اور مخالفت نظري_
۵) جرم عملى مخالفت كے ذريعہ ہوتا ہے_ البتہ كسى فرمان يا قانون كے صحيح نہ ہونے كااعتقاد ركھنا ملكى جرم كا باعث نہيں بنتا_
۶) ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے _ جبكہ اس كى نظرى موافقت ضرورى نہيں ہے_
۷) دوسرے نظاموں كے مقابلہ ميں نظام ولايت فقيہ كو يہ امتياز حاصل ہے كہ اس نظام ميں حكومتى قوانين كى عملى مخالفت جرم كے ساتھ ساتھ شرعى مخالفت بھى شمار ہوتى ہے_
۸)فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كا وجوب مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى روايات سے ثابت ہوتا ہے_
۹)ولى فقيہ كے حكومتى احكام كى اطاعت صرف اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ ہر مكلف چاہے وہ مجتہد و فقيہ ہى كيوں نہ ہو اس پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_