فقہاء كے اجتہاد كا معنى يہ ہے كہ منابع و مصادر سے شرعى حكم كو كشف كرنے كى كوشش كى جائے_ بنابريں مجتہد كافقہى فتوى در حقيقت شارع مقدس كے ''شرعى حكم كا بيان'' ہے_ فقيہ اپنے فتوى سے شرعى حكم جعل نہيں كرتا بلكہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے حكم كو بيان كرتا ہے_ مقام استنباط ميں فقيہ اور مجتہد كا فريضہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے شرعى حكم كو كشف كرنا ہے_
ب: قاضى كا حكم
تنازعات اور لڑائي جھگڑوں كى تحقيق كے بعد قاضى جو حكم صادر كرتا ہے وہ خود قاضى كا جعل كردہ حكم ہے_ فتوى كى قسم سے نہيں ہے_ كيونكہ فتوى جعل شارع كا بيان كرنا ہے جبكہ مقام قضاوت ميں قاضى حكم كوجعل كرتا ہے_اگر چہ قاضى كا حكم شرعى احكام سے غير مربوط نہيں ہوتا اور قاضى شرعى موازين كے مطابق حكم صادر كرتا ہے جھگڑوں كا فيصلہ كرتا ہے ليكن اس كا كام شرعى حكم كا بيان كرنا نہيں ہوتا بلكہ شرعى احكام كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرنا ہوتا ہے_ قاضى دونوں طرف كے دلائل سنتا ہے ، پھر ايك طرف'' قرائن و شواہد'' اور دوسرى طرف ''شرعى احكام اور قوانين'' كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرتا ہے_ پس قاضى كا حكم'' شرعى حكم'' كے علاوہ ايك الگ حكم ہے_
ج: حكومتى حكم
اب تك يہ معلوم ہو چكا ہے كہ فقيہ فتوى دينے كے علاوہ بھى حكم جعل كرسكتا ہے _ اور يہ جعل حكم ''مقام قضاوت'' ميں ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ فقيہ عادل كا جعل كردہ حكم، فقط تنازعات كے حل اور جھگڑوں كے ختم كرنے تك محدود ہے؟ يقينى طور پر ايسے موارد آتے ہيں جہاں فقہاء نے يہ تسليم كيا ہے كہ ''فقيہ عادل'' تنازعات كے حل كے علاوہ دوسرے مقامات پر بھى حكم ''جعل'' كرسكتا ہے_