اخلاق ،بے داغ عزت والے ہوتے ہيں حرص و طمع كى طرف كم مائل ہوتے ہيں اور عواقب و نتائج پر زيادہ نظر ركھتے ہيں _ پھر يہ كہ لوگوں كے معاملات كا فيصلہ كرنے كيلئے ايسے شخص كو منتخب كرو جو تمھارے نزديك تمھارى رعايا ميں سب سے بہتر ہو، جو واقعات كى پيچيدگيوں سے اكتا نہ جاتا ہو ، اور نہ جھگڑا كرنے والوں كے رويہ سے غصہ ميں آتا ہو ، اور نہ ہى اپنے كسى غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو اور نہ ہى حق كو پہچان كر اس كے اختيار كرنے ميں طبيعت پر بوجھ محسوس كرتا ہو _
۳_زہد اور سادگى :
گذشتہ سبق ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں كہ اسلامى نقطہ نظر سے ''حكومت'' ايك سنگين ذمہ داريوں كى حامل الہى امانت ہے اور ہرگز كسى اجتماعى امتياز يا دولت سميٹنے كيلئے كوئي وسيلہ شمار نہيں ہوتى _ دوسرى طرف كمزوروں كى حمايت اور طاقتور افراد سے ستم رسيدہ اور كمزور افراد كے حق كى وصولي،اسلامى نظام كے اہداف ميں سے ہے لہذا ضرورى ہے كہ حكام اور حكومتى اہلكار فقيروں اور مظلوموں كے درد سے آشنا ہوں اور معاشى و اقتصادى لحاظ سے ان سے دور نہ ہوں _ حضرت اميرالمومنين فرماتے ہيں :
''إنّ الله جعلنى إماماً لخلقه، ففرضَ على التقدير فى نفسى و مطعمى و مَشربى و مَلبسى كضعفاء الناس، كى يقتدى الفقير بفقرى و لا يطغى الغنى غناه '' (۱)
خدا نے مجھے لوگوں كا امام بنايا ہے _ اور مجھ پر واجب قرار ديا ہے كہ ميں اپنے نفس ،كھانے پينے اور لباس ميں فقراء كى طرح رہوں تا كہ فقير ميرے فقر ميں ميرى پيروى كرے اور دولتمند اپنى دولت كى بناپر نافرمانى اور سركشى نہ كرے _
____________________
۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۱_