كاانتخاب كريں گے_ ليكن منتخب شدہ ممبران حق نہيں ركھتے كہ اسلامى تعليمات كے منافى قوانين بنائيں_ اكثريت كا انتخاب اور لوگوں كى آراء اس وقت تك قابل احترام ہيں جب تك قبول كئے گئے عقائد كے مخالف نہ ہوں بنابريں جس طرح لبرل عقيدہ كے حامى ''جمہوريت'' كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتے ہيں اسى طرح اسلام بھى جمہوريت كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتاہے_ پس جمہوريت اور اسلام كے درميان توافق قائم كيا جاسكتاہے_ اسلامى جمہوريہ ايران كا سياسى نظام اس كا عملى نمونہ ہے_ ايران كا اساسى قانون اگر چہ جمہورى نظام كے تحت بنايا گيا ہے اور اس ميں عوام كى آراء شامل ہيں_ ليكن اس كے ساتھ ساتھ خدا كى حاكميت اور اسلامى تعليمات كو بھى مدنظر ركھا گيا ہے اور قومى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير سايہ قرار ديا گيا ہے_
ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق
گذشتہ سبق ميں اشارہ ہوچكاہے كہ بعض افراد'' ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے نظريہ كے قائل ہيں در اصل اس نظريہ كى بنياد ولايت فقيہ كى ايك خاص تحليل و تفسير پرہے-_ وہ يہ كہ يہ افراد ولايت فقيہ كو بے بس ومحجور افراد كى سرپرستى كے باب سے قرار ديتے ہيں_اس نظريہ كى بناپر نظام ولايت فقيہ اورجمہوريت كى تركيب دو متضاد چيزوں كى تركيب كے مترادف ہے_ اور جس اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كو جمع كيا گيا ہے وہ ناقبل حل مشكل سے دوچار ہے _ كيونكہ اس قانون ميں دو متضاد چيزوں كو جمع كياگيا ہے _
اسلامى جمہوريہ ايران ميں'' مجلس خبرگان رہبري''(۱) كے انتخاب كيلئے عوامى آراء كى طرف رجوع كيا جاتاہے_ اكثريت كى آراء كى طرف رجوع كرنے كا معنى يہ ہے كہ در حقيقت يہ عوام ہى ہيں جو رہبر اور ولي
____________________
۱) Assembly Of experts .