سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _
اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟
حاكميت دين كى حدود
سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :
الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_
ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_
پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟
دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں