5%

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management