چھٹی فصل
خطرناک مثلث
اسلام کے تین دشمن
جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باہر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ہوئے تھے اور ہر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باہم ایک ہو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ہوں ۔
پہلا دشمن :
داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میں ذکرہوھے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاہتے تھے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ہو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ہو گیا ۔ ساتھ ہی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔
اسلام کے یہ دشمن جو بظاہر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رہے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رہے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاہے:( انما نتربص به ریب المنون ) (۲۰) یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ فوت ہوجائے اور اس کی شھرت ختم ہوجائے۔
یہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ہی اسلام کی رونق ختم ہوجائے گی،اس کا پھیلاو رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ جاہلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔
آنحضرت کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاہا کہ قریش اور بنی ھاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ہمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوا اور ان سے بولا :اپنا ھاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جرات نہ کریں امام نے پوری ہوشیاری کے ساتھ صف اسلام میں اختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ہو گئے۔(۲۱)
مسجد ضرار جو نویں ہجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ھاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاہر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ہے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وھاں سے اپنے گروہ کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ ہجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بھت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ “(۲۲) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ہی رہو ۔
منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بھت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ہیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ہیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ہی تھے کہ آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باہر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ہر رخ کی ہوا پر ادھرادھر ہی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انہیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔
ایسے خونخوار دشمنوں کے ہوتے ہوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجہدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ہر گروہ یہ کھتا نظر آئے کہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور وہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے ؟!
باقی دو دشمن
اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پہلی جنگ ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ہوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ہوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کھیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔
اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نہیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رہے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پہلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ہوں اور اس سے پہلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔
یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بھت نگراں تھے اور کہا کرتے تھے کہ ممکن ہے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔
تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاہی تھی ۔یہاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔
حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ہو گیا تھا بلکہ خود مختار ہو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ہوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ہو جائے۔
اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ہو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذھن سے دور نہیں ہو ا تھا ۔ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔
ایسے طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ہوئی ہوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ہوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رہبر معین نہ کیا ہوگا۔
____________________
(۲۰)۔سورہ طور/۳۰
(۲۱) الدرجات الرفیعہ ص/۷۷ حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ” ما زلت علی و الاسلام و اہلہ “ تو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کا دشمن رہا ہے ۔ الاستیعاب ،ج/۲ص/۶۹۰
(۲۲) یہ حدیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں تواتر کے ساتھ آئی ہے