5%

چوریا

تئیسواں گناہ چوریا

تئیسواں گناہ جس کے کبیرہ ہونے کی صراحت موجود ہے ، چوری کرنا ہے۔ فضل بن شاذان والی روایت میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اسے گناہانِ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ اعمش راوی ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ حدیثِ نبوی نقل فرمائی کہ:لَا یَزْنِی الزّٰانِیْ وَهُوَ مُومِنُ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ وُهُوَ مُوْمِنُ (وسائل الشیعہ) یعنی "کوئی شخص مومن ہوتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا اور کوئی شخص مومن ہوتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ پس زنا کرنے والا شخص اور چوری کرنے والا شخص مومن نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی میں ایمان کی روح نہیں ہوتی۔ ایسے آدمی کو خدا اور روزِ جزا پر مناسب حد تک ایمان نہیں ہوتا۔ ایسا آدمی اگر توبہ کیے بغیر مرجائے تو مومن کی موت نہیں مرتا۔ بعض آیتیں اور روایتیں ایسی ہیں جو خیانت کی مذمت میں ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اس

کُل مَنْ سَرَقَ مِنْ مُّسْلِمٍ شَیْئًا قَدْحَوَّاه وَاَحْرَزَه فَهُوَ یَقَعُ عَلَیْهِ اسْمُ السَّارِقِ وَهُوَ عِنْدَاللهِ سَارِقُ ۔

"ہر وہ شخص چور کہلائے گا اور خدا کی نظر میں چور ہوگا جو کسی مسلمان کا ایسا مال چرالے جس کو اس نے اپنی ملکیت بنا لیا ہو اور جس کو اس نے اپنے لئے رکھ لیا ہو۔" (یعنی خداوندتعالیٰ اسے وہی عذاب دے گا جو چور کے لئے اس دنیوی زندگی کے بعد معین ہے۔)

وَلٰکِنْ لَا تُقْطَعُ اِلَّا فِی رُبْع دِیْنَارٍ اَوْاکْثَرَ "لیکن (دنیا میں )اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ہے ہاں اگر وہ ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کا مال چرائے توکاٹا جاتا ہے۔"وَلَوْ قُطِعَتْ یَدُ السَّارِقِ فِیْمَا هُوَ اَقَلُّ مِنْ رُّبْع دِینَارٍ لَاَلقَیْتَ عَامَّةَ النّاسِ مُقَطَّعِیْنَ (کتاب "تہذیب") "اگر چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ کاٹے جائیں تو تم اکثر لوگوں کا ہاتھ کٹا ہوا پاؤ گے!

چوری کی سز

سورئہ مائدہ میں ارشاد ہے:

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْااَیْدِیَهُمَا جَزٰاءً بِمَا کَسَبَانَکٰالَامِّنَ اللهُ عَزِیزُ حَکِیْمُ فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ اِنَّ اللهَ غَفُوْرُرَّحِیْمُ )

(سورئہ مائدہ ۵ : آیت ۳۸ اور ۳۹)

"اور چور خواہ مرد ہو یا عورت، تم ان کے کرتوت کی سزا میں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ یہ اُن کی سزا خدا کی طرف سے ہے۔ اور خدا تو بڑا زبردست حکمت والا ہے۔ ہاں جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اپنے چال چلن درست کرلے تو بے شک خدا بھی اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ یقینا خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔"

کتاب "برہانِ قرآن" کے صفحہ ۱۷۰ پر کچھ یوں لکھا ہے:

"اسلام دشمن افراد نے جن موارد پر اسلام کے خلاف ہنگامہ اور معرکہ کھڑا کیا ہے اُن میں سے ایک سزاؤں کا اسلامی قانون ہے۔ دشمن ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں ایسی سزائیں شائستہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر دشمنوں نے چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے اور زنا کی سزا میں سنگسار کر دینے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ وہ اپنا فلسفہ بگھارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جرائم ایک طرح کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں ہیں پس ان کا علاج سزاؤں سے نہیں بلکہ درسِ اخلاق دے کر نفسیاتی طریقوں سے ہونا چاہیئے۔"

ہم کہتے ہیں کہ ہم درسِ اخلاق اور روحانی علاج کے منکر نہیں ہیں۔ بے شک درس و نصیحت کا معاشرے کے افراد پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرتے کہ اکثر جرائم اخلاقی خرابیوں اور بیمار روح کے باعث واقع ہوتے ہیں۔

اسلام نے درس و نصیحت کا اور اخلاق و عادات کی اصلاح کا پہلو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر درس و نصیحت کے باوجود آدمی سرکشی کرے اور اپنی خواہشات کو بے لگام چھوڑ دے تو ایسے آدمی کی اصلاح سزا کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ چھوٹے تین چار سال کے بچے کو بھی خدا نے اپنے اوپر قابو پانے کی صلاحیت دی ہے۔ مثلاً یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ پیشاب آئے تو روک لے اور بستر پر نہ کرے۔ اس کے باوجود اور والدین کی نصیحت کے باوجود اگر بچہ لاپرواہی کرتا ہے تو والدین کو سختی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے کے لئے نفسیاتی اور اخلاقی علاج کو کافی قرار دینے والے حضرات کے ممالک میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ مجرموں کو محض درس و نصیحت کر کے پیار سے چھوڑ دیا جائے، بلکہ وہاں بھی ان کو جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں مختلف سزائیں دی جاتی ہیں۔

ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ اقتصادی بدحالی بھی بہت سے جرائم کا سبب ہو جاتی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ غربت اور افلاس کے باعث آدمی بد اخلاق ہو جاتا ہے۔ کینہ اور معاشرے سے دشمنی کے جراثیم اس کے اندر پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ خود غرضی دوسروں کے حقوق چھین لینے پر اکساتی رہتی ہے۔ غربت کے باعث خیانت اور چوری کا رجحان بڑھتا رہتا ہے۔ کسی بھی محرومی کے باعث آدمی جرم کر کے بھی وہ محرومی دور کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن ہم یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ صرف غربت اور محرومی ہی جرائم کا سبب ہے۔ ہم ایسے بہت سے لوگوں کو پہچانتے ہیں جو غربت اور محرومیوں کا شکار ہونے کے باوجود ظلم و جرم سے باز رہتے ہیں۔ انتہائی پرہیزگاری اور قناعت کا ثبوت دیتے ہیں، اور بڑے خلوص کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جن ممالک اور علاقوں میں معاشی بدحالی نہیں ہے وہاں بھی جرائم و مظالم بکثرت ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سویت یونین میں کمیونزم کی وجہ سے چونکہ طبقاتی فرق مٹ چکا ہے، اس لئے وہاں کوئی ظلم و جرم نہ ہوتا ہو۔ وہاں کی جیلیں گواہ ہیں کہ وہاں بھی طرح طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔

اسلام کے سخت قوانین پر اعتراض کرنے والے اور انہیں وحشیانہ قرار دینے والے لوگ خود کو بھول جاتے ہیں۔ آزادی اور انسان دوستی کا نعرہ لگانے والے لوگ خود اپنے جرائم و مظالم کیوں بھول جاتے ہیں؟ شمالی افریقہ میں چالیس ہزار عوام کو محض اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے کے جرم میں مشین گنوں کے ذریعے قتل کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ وحشیانہ نہیں ہے؟! ۱۴ اپریل ۱۹۶۰ ء کے روزنامہ کیہان (تہران) میں لکھا ہے کہ: "چھ سال کی اس مدت میں الجزائر کے حریت پسند اور مجاہد عوام نے بڑی دلیری سے فرانس کی ظالم حکومت کی غلامی سے نجات پانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ اب تک الجزائر کے دس ملین (ایک کروڑ) میں سے ایک ملین (دس لاکھ) افراد اپنے بنیادی حقوق کے دفاع کے جرم میں قتل کئے جا چکے ہیں!!"

بہر حال ہم اصل موضوع پر آتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام نے ہر پہلو کو مد نظر رکھا ہے۔ جہاں اسلام سخت سزاؤں کا حکم دیتا ہے وہاں اخلاقی و روحانی خرابیوں کو دور کرنے اور معاشی بدحالی کے خاتمے کے احکام بھی صادر کرتا ہے ۔ اسلام ہر راہ سے کوشش کرتا ہے کہ جرم کے امکانات کم سے کم ہوجائیں۔ حتی الامکان کوشش کرتا ہے کہ کوئی جرم معاشرہ میں پھیلنے نہ پائے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص سرکشی کرتا ہے اور جرم کرتا ہے تو سزا کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اسلام جرم کرنے والے کے عذر کو بھی دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص معاشی بدحالی سے اور بھوک سے پریشان ہو کر چوری کر بیٹھے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جاتا، بلکہ سزا سے آزاد رہتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑی بہت تعزیر اور تنبیہ کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ آئندہ وہ ایسا نہ کرے۔

یہ اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک کے ہر فرد کو مناسب روزگار کی راہ پر لگا دے ، اگر کوئی شخص اس کے باوجود بے روزگار رہ جاتا ہے تو بیت المال سے اس کو باروزگار ہونے تک وظیفہ ملتا ہے۔ جب ایسا ہے تو اسلامی حکومت میں چوری کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیئے، اور اس کے باوجود چوری کرنے والے کو واقعی سزا ملنی چاہئیے، اسی طرح یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ کسی کے دباؤ میں آکر چوری تو نہیں کر بیٹھا ہے۔ اگر واقعی آدمی کسی طرح مجبور ہو تو اسے سزا نہیں ملتی۔ ویسے بھی ظاہر ہے کہ کسی غیر اسلامی حکومت میں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہوتے۔ پس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اسلامی حکومت کے دور میں بھی تاریخ گواہ ہے کہ چار سو سال میں صرف چھ بار چوری کی سزامیں ہاتھ کاٹا گیا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے جس وحشیانہ انداز میں لڑائی کی ہے اس کے نتیجہ میں ۳۵ ملین (تین کروڑ پچاس لاکھ) افراد قتل ہوئے۔ بیس ملین (دو کروڑ) افراد ہاتھ پاؤں سے محروم ہوگئے۔ سترہ ملین لیٹر (ایک کروڑ ستر لاکھ لیٹر) خالص انسانی خون زمین پر بہہ گیا۔ اور بارہ ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) حمل ضائع ہوگئے!! کیا وہ جنگ انتہائی وحشیانہ نہیں تھی؟ پھر چار سو سال میں اگر صرف چھ بار بے ضمیر چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے ہوں تو اسے وحشیانہ کہنے کا کیا جواز ہے؟ جب کہ شیعہ فقہ کے لحاظ سے سیدھے ہاتھ کی چار انگلیاں ہی کاٹنے کا حکم ہے، ہتھیلی اور انگوٹھا پھر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی کہے کہ پہلے کے لوگوں کا شعور اعلیٰ سطح کا نہیں تھا اور ان کو قابو میں رکھنے کے لئے ایسی سخت سزائیں مناسب تھیں، لیکن اب تو لوگوں کا شعور بڑھ گیا ہے، اب ایسی سزائیں مناسب نہیں ہیں۔ ہم کہیں گے کہ ایسی باتیں سادہ لوح افراد کو دھوکا دینے کے لئے ہیں۔ اگر شعور اعلیٰ درجے کا ہے تو ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں جرائم کی اتنی بہتات کیوں ہے؟! بات یہی ہے کہ سزا سخت نہیں رکھی گئی ہے اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہیں گے کہ سخت اسلامی سزا کا تصور خود شعور کی سطح کو بلند کرتا ہے۔ آدمی فساد اور تباہی سے بچا رہتا ہے اور فضیلت کے منازل طے کرتا ہے آدمی کے ذہن میں خود بخود یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ واقعی مثلاً چوری بہت بُرا کام ہے۔

ظاہر ہے کہ چوری کی سزا بیان کرنے والی مذکورہ آیات میں پوری تفصیل نہیں ہے کہ چوری کیسی ہو کہ ہاتھ کاٹا جائے اور کتنا ہاتھ اور کونسا ہاتھ کاٹا جائے اور یہ بھی ظاہر ہے یہ سب تفصیل ہمیں احادیث ہی سے مل سکتی ہے۔ اس موضوع پر بہت سے احادیث موجود ہیں اور ان کی روشنی میں چوری کی حد اور سزا کے لئے مندرجہ ذیل شرطیں سامنے آتی ہیں:۔

چوری کی حد جاری کرنے کی شرطیں

چور کا ہاتھ کاٹنے سے پہلے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھا جاتا ہے اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔

( ۱) ایک شرط یہ ہے کہ چور بالغ ہو۔ بالغ ہونے کی شرعی علامتیں یہ ہیں کہ اگر لڑکا ہے تو چاند کے حساب سے پندرہ سال کا ہو چکا ہو اور اگر لڑکی ہو تو چاند کے حساب سے نو سال کی ہو چکی ہو۔ بالغ ہونے کی ایک اور علامت یہ ہے کہ زیرِ ناف شرم گاہ کے اوپر اگنے والے بال سخت اور چبھنے والے ہوگئے ہوں۔ بالغ ہونے کی تیسری علامت یہ ہے کہ احتلام ہوجائے یا کسی طرح منی نکل آئے ان تینوں میں سے کوئی بھی علامت پائی جائے تو آدمی بالغ شمار ہوتا ہے۔ پس اگر چوری کرتے وقت چور نابالغ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا بلکہ قاضی جہاں تک مناسب ہو بچے کو تعزیر اور ڈانٹ ڈپٹ کر کے چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔

عبدالله ابنِ سنان حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ: "جب نابالغ بچہ چوری کرے تو پہلی اور دوسری مرتبہ کی چوری میں اسے معاف کر دینا چاہئیے۔ تیسری مرتبہ بھی اگر وہ چوری کرے تو اس کو چوری سے روکنے کے لئے ڈانٹنا مارنا چاہئیے۔ اور اس کے بعد بھی بچہ چوری کرے تو اس کی انگلیوں کے تھوڑے تھوڑے کونے کاٹ دینے چاہئیں۔ اگر پھر بھی بچہ چوری کرتا رہے تومزید تھوڑی تھوڑی انگلیاں کاٹی جاتی رہیں۔

( ۲) ایک اور شرط یہ ہے کہ چور عاقل ہو۔ پس اگر دیوانہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اور اگر مفید اور موثر ہو تو مناسب ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔

( ۳) ایک اور شرط یہ ہے کہ آدمی نے کسی کی دھمکی میں آکر یا کسی اور مجبوری کے تحت چوری نہ کی ہو۔ اگر مجبوری ہو تو شرعی حد جاری نہیں ہوتی۔

( ۴) جو چیز چرائی گئی ہو وہ شرعاً مال اور ملکیت کے قابل سمجھی جاتی ہے۔ پس اگر آزادی سلب کرلی جائے تو یہ چوری نہیں کہلاتی۔

( ۵) جو چیز چرائی گئی ہو اس کی قیمت ایک چوتھائی شرعی مثقال خالص سونے سے کم نہیں ہونی چاہیئے۔ ایک شرعی مثقال اٹھارہ چنے کے دانوں کے برابر ہوتا ہے جس کا چوتھائی وزن ساڑھے چار چنے کے دانوں کے برابر ہے۔

( ۶) چوری کا مال بیٹے یا غلام کا نہیں ہونا چاہئیے۔ پس اگر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کا مال چرا لے تو اس کو شرعی سزا نہیں دی جاتی لیکن اس کے برعکس اگر بیٹا یا بیٹی اپنے باپ یا اپنی ماں کا مال چرا لے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہی بات غلام کے سلسلے میں بھی ہے کہ اگر آقا اپنے غلام کا مال چرا لے تو کوئی سزا نہیں ہوتی اگرچہ لکھا پڑھی ہوچکی ہو کہ غلام اتنا مال کما کر دے دے تو وہ آزاد ہوجائے گا۔ البتہ اگر غلام اپنے آقا کا مال چرائے تو اس پر حد جاری ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے۔

بعض مجتہدین نے فرمایا ہے کہ اگر کاریگر یا ملازم اپنے مالک اور دفتر کے سربراہ کا مال چرالے سو اس پر شرعی حد جاری نہیں ہوتی، لیکن مشہور فتویٰ یہ ہے کہ کاریگر ، ملازم اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے اور شرعی سزا ملے گی اور اگر مہمان میزبان کا مال چرالے تو بھی علماء کے فتوؤں میں اختلاف ہے، زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ مہمان کو سزا ہوگی۔

( ۷) چوری کا مال قحط کے زمانے میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "قحط اور بھوک کے دور میں روٹی، گوشت وغیرہ جیسی خوراک چرا لینے پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔"

( ۸) اگر سپاہی نے مالِ غنیمت دشمن سے حاصل کرنے میں شرکت کی ہو اور ابھی وہ تقسیم نہیں ہوا ہو تو اگر ایسے میں وہ سپاہی مالِ غنیمت میں سے کچھ چرا لے تو وہ شرعی سزا سے معاف ہے۔

( ۹) کسی معاملے میں باہمی شرکت کرنے والا ایک شریک اپنے دوسرے شریک کا مال چرالے اور یہ دعویٰ کرے کہ یہ اسکا حصہ اور حق ہے تو اس پر حد جاری نہیں ہوتی۔

( ۱۰) جس شخص پر چوری کا الزام لگایا گیا ہو لیکن ابھی قاضی کے سامنے اس کا چور ہونا ثابت نہ ہوا ہو، اگر ثابت ہونے سے پہلے وہ شخص چوری کا مال مالک سے خریدلے اور اس کی قیمت ادا کردے تو چوری ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور اس طرح حد بھی جاری نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر چوری کا الزام ثابت ہو مثلاً بیٹے نے باپ کا مال چرالیا ہو، لیکن چوری ثابت ہونے سے پہلے باپ کا انتقال ہو گیا ہو اور وہ چوری کا مال بیٹے کو میراث میں مل گیا ہو تو چوری کی سزا نہیں ہوگی۔

( ۱۱) گر چرائی ہوئی چیز کا استعمال حرام ہو، مثلاً وہ شراب یا سور کا گوشت ہو تو چوری کی سزا نہیں ملتی۔

( ۱۲) چوری کا ملزم اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس نے مال چوری کی نیت سے نہیں اٹھایا تھا، اور قاضی کسی اورنیت کا احتمال معقول سمجھے تو حد جاری نہیں ہوتی۔

( ۱۳) شرعی سزا کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس جگہ چوری ہوئی ہو وہاں جانے کے لئے اس کے مالک کی اجازت ضروری ہو، پس اگر مسجد ، عمومی حمام یا کسی اور عمومی جگہ سے چوری ہو تو سزا نہیں ملتی۔

( ۱۴) ایک اور شرط یہ ہے کہ مال کو اس کی محفوظ جگہ سے چرایا گیا ہو۔ اگرمال کو حفاظت سے نہ رکھا گیا ہو اور کھلا چھوڑ دیا گیا ہو تو اس کی چوری سزا کی موجب نہیں ہوتی۔ مثلاً زیورات محفوظ جگہ مقفل ہونے چاہئیں۔ پھل درخت پر سے توڑ کر نہ چرائے گئے ہوں بلکہ باغ کے اندر جمع کئے ہوئے ذخیرے یا پھلوں کے ٹوکرے سے چرائے گئے ہوں ، چوپائے اصطبل سے چرائے گئے ہوں ، بیچنے کا سامان دوکان کے اندر سے چوری ہو گیا ہو۔ ایسی جیب سے چرایا گیا ہو جو اندر کی طرف ہو اور باہر لٹک نہ رہی ہو ۔ پیسے مثلاًتجوری یا محفوظ جگہ سے چرائے گئے ہوں۔ اسی طرح کفن قبر کے اندر سے چرایا گیا ہو۔

( ۱۵) ایک اور شرط یہ ہے کہ چور خود چوری کا مال محفوظ جگہ سے نکال کر لے جائے۔ اب مثلاً ایک آدمی مال کو اس کی محفوظ جگہ سے نکال دے اور دوسرا آدمی اسے لے جائے تو دونوں میں سے کسی پر چوری کی حد جاری نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ جس شخص نے محفوظ جگہ سے مال کو نکال کر غیر محفوظ کر دیا اُس نے چوری نہیں کی۔ اور جس شخص نے مال چرایا وہ غیر محفوظ جگہ سے چرایا۔ اور ابھی چودھویں شرط بتائی گئی کہ غیر محفوظ جگہ سے چرانے پر چوری کی سزا نہیں ملتی۔ صرف ایسے شخص کو سزا ملتی ہے جو محفوظ جگہ سے نکالے بھی اور چرا کر لے جائے بھی۔ اور اگر محفوظ جگہ سے مال چرا کر لے جانے میں ایک سے زیادہ آدمی شریک ہوں تو ہر چور کا حصہ ایک چوتھائی مثقال سونے کی قیمت کے برابر ہو تو ہر ایک کا ہاتھ کاٹا جائے گا، ورنہ جس کا حصہ اس مقدار کا ہو، اس کا ہاتھ کٹے گا۔ اور اگر کسی کا حصہ اتنا نہیں بنتا تو کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اگر چور محفوظ جگہ سے مال نکال کر اپنے چوپائے پر لاد دے، یا اپنے نابالغ بچے کو یا کسی دیوانے کو دے دے، اور وہ جانور ، نابالغ بچہ یا دیوانہ اُس مال کو لے جائے تو بھی چور شرعی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اس لئے کہ جانور، نابالغ بچہ یا دیوانہ یہاں محض سواری کے حکم میں ہے۔

( ۱۶) چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ یعنی چُھپ کر آدمی مال چرالے اور اس کے لے جانے کے بعد سمجھ میں آئے کہ چوری ہوگیا ہے۔ پس اگر آدمی ڈاکہ ڈالے ، یعنی زبردستی مالک سے مال چھین لے جائے تو اس پر چوری کی حد جاری نہیں ہوتی۔ ڈاکہ ڈالنے پر تعزیر ہوتی ہے، یعنی اتنا ڈانٹا یا مارا جاتا ہے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرے۔ ہاں اگر ڈاکو نے اسلحے کے زور پر ڈاکہ ڈالا ہو تو اس کی شرعی سزا محارب یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے کی سزا ہے۔

(سورئہ مائدہ کی آیت ۳۳ میں وہ سزا مذکورہ ہے کہ یا تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے یا سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے یا ایک طرف کا ہاتھ تو دوسری طرف کی ٹانگ کاٹ لی جاتی ہے یا پھر جلا وطن کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک سزا کا قاضی کو اختیار ہے۔)

( ۱۷) اگر چوری ثابت ہونے سے پہلے ہی چور شرعی قاضی کے پاس جا کر آئندہ چوری کرنے سے توبہ کر لے تو اس پر حد جاری نہیں ہوتی۔ لیکن چوری ثابت ہونے کے بعد توبہ کرنے سے حد ساقط نہیں ہوتی۔

( ۱۸) چوری ثابت ہونے کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ چور کو چراتے ہوئے دو عادل شخص اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک عادل آدمی چوروں کی چشم دید گواہی دے دے اور چوری ہوجانے والے مال کا مال بھی قاضی کے سامنے قسم کھائے کہ فلاں نے وہ مال چرایا ہے اگر چور خود دو مرتبہ اپنی چوری کا اعتراف قاضی کے سامنے کر لے تو بھی وہ شرعی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اگر چور ایک مرتبہ اقرار کرے لیکن دوسری مرتبہ اقرار کرنے کو تیار نہ ہو تو جتنے مال کی چوری کا اُس نے پہلے اقرار کیا تھا اتنا مال اُس سے لے کر مالک کو دے دیا جاتا ہے لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔

( ۱۹) چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا اس وقت دی جاتی ہے جب چوری ہوجانے والے مال کا مالک خود قاضی سے سزا کا مطالبہ کرے۔پس اگرمالک قاضی کے پاس مسئلہ پہنچنے سے اور شرعًا چوری ثابت ہونے سے پہلے چوری کا مال چور کو بخش دے یا چورسے خود واپس لے لے اور اس کی سزاکے سلسلے کو نظر کر دے تو سزا نہیں ہوتی۔ البتہ جب شرعًا قاضی کے پا س چوری ثابت ہوجائے تو مال کا مالک چور کو سزا سے نہیں بچا سکتا۔

بعض مجتہدین نے فرمایا ہے کہ اگر چوری دوعادل گواہوں کی گواہی سے نہیں ، بلکہ خود چور کے دو مرتبہ اقرار کرنے سے ثابت ہوئی ہو تو حاکم شرع اور قاضی کو حق ہے کہ اگر مصلحت سمجھے تو چور کو شرعی سزا سے معاف کردے۔کتاب" تہذیب " میں یہ روایات ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السَّلام کی خدمت میں آیا اس نے اپنی چوری کا اقرار کرلیا۔ حضرت نے فرمایا: " آیا قرآن میں سے کچھ زبانی سنا سکتے ہو؟ "اس نے کہا ’جی ہاں سورئہ بقرہ ،حضر ت نے فرمایا:" میں نے تمہارے ہاتھ کو سورئہ بقرئہ کے طفیل چھوڑدیا۔ "اشعث نے کہا : "یاعلی  ! کیا آپ حدودِ خد اکو نظر انداز کررہے ہیں؟ فرمایا "تم کیاجانتے ہو؟ حد جاری کرنا اُس وقت لازمی ہے جب بینہ (دو عادل آدمیوں کی گواہی ) سے جرم ثابت ہو۔ اور اگر اقرار سے ثابت ہو تو امام مجرم کو معاف کرسکتاہے۔

مذکورہ شرائط اگر موجود ہوں تو چور کاہاتھ کاٹنے کا فرض صرف حاکم شرع (قاضی ) انجام دے سکتاہے۔ شرعی قاضی کے علاوہ کسی کو حد جاری کرنے اور سزا دینے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ یہ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ حد جاری کرنے کے علاوہ چوری کا مال چورسے لے کر واپس اس مالک کو دے۔ اگر وہ مال خرچ یا ضائع ہوچکا ہو تواُسی جیسا اور اسی مقدار ایا تعداد کا دوسرا مالک چور کو دینا پڑتا ہے ۔اگر ایسانہ ہوسکے تو اس مال کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ مال کی واپسی کایہ حکم دونوں صورتوں میں ہے، خواہ چوری شرعًا ثابت ہوئی ہویا ثابت نہ ہوئی ہو۔ اگر دوسرے کا مال لیا ہے تولوٹانا پڑے گا۔

بعض ایسی صورتیں کہ چوری ثابت تو نہیں ہوتی مگر حاکم شرع دوسرے کا مال اٹھانے والے کو تعزیر کرتا ہے اور اس حد تک ڈانٹتا مارتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے ۔ تو تعزیر کی مقدار اور کیفیت خود قاضی کی مرضی اور رائے کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلًا مال اگر غیر محفوظ جگہ سے چرایا گیاہو،یا جعلسازنے جعلی چیک یا جعلی دستخط کی مدد سے دوسرے کا مال ہتھیا لیا ہو۔ ایسی صورتوں میں مال اصل مالک کو لوٹانا واجب ہوتا ہے اور تعزیربھی ہوتی ہے۔ اسی طرح کفن چوری کرنے کی نیت سے اگر آدمی ایسی قبر کھول دے جس میں مردا موجو ہو لیکن اس نے کفن چرایا نہ ہو، تو اس میں بھی تعزیر کی جاتی ہے اور اگر وہ کفن بھی چُرالے تو اگر کفن کی قیمت چوتھائی مثقال سونے کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا ہے۔

مال اور آبرو کی حفاظت

اگرچور نظر آجائے تو وہ محارب یعنی ڈاکو کے حکم میں آجاتاہے۔ آدمی اپنے مال کی حفاظتمیں اس کامقابلہ کرسکتا ہے۔اگرا یسی صورت میں ڈاکو مارا جائے تو اس کا خون معاف ہے اور کوئی قصاص وغیر ہ بھی نہیں دینا پڑتا اسیطرح جان اور ناموس کا دفاع کرتے ہوئے بھی آدمی حملہ آور شخص کو ہلاک کر سکتاہے۔ البتہ اصل مقصد دفاع ہونا چاہیئے ۔ اگر قتل کے بغیر دفاع ممکن ہو تو قتل کرنا حرام ہے۔ جس حد کی جدوجہد میں دفاع ہوجاتاہو اُسی حد پرا کتفا کرنا چاہیئے ۔

چوری سے متعلق احکام بہت ہیں اور مذکورہ شرائط میں مجتہدین کی رائے بھی کہیں کہیں مختلف ہے۔ اس کتاب کی گنجائش کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اسی مقدار پرا کتفا کررہے ہیں۔

کس طرح حد جاری کی جائے؟

حاکم شرع چوری کی شرائط حاصل ہونیکی صورت میں چور کے داہنے ہاتھ کی چاانگلیاں کاٹ دیتا ہے ہاتھ کے انگوٹھے اور ہتھیلی کو چھوڑ دیتاہے۔ اگر چور کی چوری کئی مرتبہ کی ایک ساتھ ثابت ہوگئی ہو اوراس سے پہلے ہاتھ نہیں کاٹا گیا ہو تو بھی یہی حد جاری ہوگی ۔ اگر ایک دفعہ چور کی چار انگلیاں کاٹی جاچکی ہوں اور اس کے بعد وہ پھر چوری کر بیٹھے اور چوری تمام شرائط سے ثابت ہوجائے تو چور کے بائیں قدم کوانگلیوں سمیت آدھا کاٹ دیا جاتا ہے۔باقی آدھا ایڑھی والا قدم کا حصہ پیدل چلنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے۔ اگر چور تیسری مرتبہ بھی چوری کرے اور اس کی چوری ثابت ہوجائے تو اسے عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ اگرقیدخانے میں بھی وہ چوری کر بیٹھے تو وہ قتل کردیا جاتا ہے۔

جس ہاتھ کو دعا اور بندگی خدا کے اظہار میں اُٹھانا چاہیئے ، جس ہاتھ کو بندگانِ خدا کی مشکلات دور کرنے کے لئے بڑھانا چاہیئے، یتیموں اور بے کسوں کی مدد کے لئے حرکت کرنی چاہیئے۔ دشمنا ن دین پر حملے کے لئے اٹھانا چاہیئے اگر وہ مسلمان بھائیوں کا مال چرانے کے لئے بڑھے گا اورا تنی ساری شرائط کے باوجود ثابت ہوجائے گا تو اس کو کاٹ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اس طرح معاشرہ کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔

دِ یَہ

اگر ہاتھ بغیر کسی جرم کے کاٹ دیا جائے تو پانچ سو مثقال سونا ہاتھ کاٹنے والے سے لے کر اس کو دے دیا جاتا ہے جس کا ہاتھ کٹا ہے ۔ جب کہ ایک چوتھائی مثقال سونا چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیاجاتاہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کے مال کو امانت نہ سمجھنے والا اور اس میں خیانت کر بیٹھنے والا شخص خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں بغیر کسی جرم کے دوسرے کا ہاتھ کاٹ دینے والے شخص سے کئی گنازیادہ ذلیل اور گنہگارہے ۔یہاں سے امانت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

ناپ تول میں کمی کرنا

گناہانِ کبیرہ میں سے چوبیسواں گناہ جس کے کبیرہ ہونیکی صراحت موجودہے۔ ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔ اس کاحرام ہونا قرآن مجید ، احادیث اجماع ، اور عقل سے ثابت ہے۔ اعمش کی روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اور فضل بن ِ شاذان کی روایت میں حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام نے اسے بھی گناہان ِ کبیرہ کی فہرست میں شامل فرمایا ہے ۔ فرمایا ہے کہاَْبَخْسُ فَی الْمِکْیال وَالْمِیْزَانِ یعنی "ناپ تول میں کم کرنا (بھی گناہِ کبیرہ ہے)۔ بیچنے والے مقررہ مقدار سے کم چیز دے یا دین (قرض یا کوئی اور مالی ذمہ داری )ادا کرنے شخص مقرر ہ مقدار ظاہر کر کے کم مقدار دے۔ یہ سب حرام ہیں ۔

قرآن مجید میں شدید ترین بیان کے ساتھ ناپ تول میں کمی کرنے کا سخت عذاب مذکور ہواہے۔ قرآن مجید کاایک سورئہ پورا اسی موضوع سے مخصوص ہے۔

اس میں ارشاد ہے کہ:

( وَیْلُ لِلْمُطَفِّیْنَ الَّذیْنَ اِذَااکْتاَلُوْا عَلٰی النَّاس لِیَسْتَوْفُوںَ وَاِذَکَا لُوْ هُمْ اَوَوَزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنُ اَلَایَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّهُمُ مَبْعُوْثُوْنَ لِیُوْمٍ عَظِیْمٍ یُوْمَ یَقُوْمُ النّاسُ لِرَبّ اِلعالَمِیْنَ ) (سورئہ تطفیف ۸۳: آیات نمبر ا تا ۶)

"ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے وَیْل ہو ( وَیل ،دوزخ کے ایک کنویں کا نام ہے ، یعنی تمام قسم کے عذاب وعتاب ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہیں۔ ) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دوسروں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں ، لیکن جب ان کوناپ کریا تو ل کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں خیال کرتے کہ ایک بڑے سخت دن قیامت میں ان کو قبروں سے اٹھایاجائے گا۔ جس دن تمام لو گ سارے جہاں کے پرورد گار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ "

اعمال سجین میں ہوں گے

( کَلَّا اِنَّ کِتَابَ الْفُجَارِ لَّفِیْ سِجِیْنٍ وَمَا اَدْرٰکَ مَا سِجِّیْنُ کِتابُ مَرقُوْمُ ) (سورئہ تطفیف ۸۳: آیات ۷ تا ۹)

"انکوڈرتے رہناچاہیئے کہ بدکاروں کے نامہ اعمال سجین میں ہیں ۔ اور تم کو کیا معلوم کہ سجین کیا چیز ہے؟ ایک لکھا ہو ا دفتر (رجسٹر ) ہے"

سجّین یا تو اس دفتر (رجسٹر ) کانام ہے جس میں کافروں اور فاسقوں کے نامہ اعمال لکھے جاتے ہیں اور یکجا رکھے جاتے ہیں۔ یاپھر سجیّن بھی جہنم کے ایک کنویں کانام ہے جس میں فاسق وفاجر لوگ جائیں گے۔ ایسی صورت میں ان آیتوں کا ترجمہ یوں ہوگاکہ : "ان لوگوں کو ڈرتے رہنا چاہیئے کہ بدکاروں کے لئے سجین میں جانالکھا ہے۔ اور تم کو کیا معلوم کہ سجین کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں تو لکھا جا چکا ہے (اور فیصلہ ہوچکا ہے جو تبدیل نہیں ہوگا )

حضر ت شعیب علیہ السَّلام نے اپنی قوم کو کچھ یوں ہدایات فرمائی تھی :

وَلا تَنْقُصُوااْلِکْیاَلَ اِنِیْ اَرٰ کُمْ بِخَیْرٍ وَّاِنّیْ اخَافُ عَلَیْکُمْ عَذاب یَوْمٍ مُّحِیْطٍ وَیاَ قُوْم اَوْفُوْ الْمِکْیَالَ وَالمِیْزَان باِلْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُوْالنّاس اَشَیاَءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (سورئہ ہود ۱۱ ، آیت ۸۴ اور ۸۵) ۔

"اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودگی میں دیکھارہاہوں (پھر گھٹانے کی کیا ضرورت ہے ) اور میں تم پر ا س دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جودن سب گھیر لے گا۔ اور اے میری قوم پیمانہ اور ترازو انصاف کے ساتھے پورے پورے رکھا کرو، اور لوگو ں کوان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور روئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھر و۔ " ظاہرہے کہ کم ناپنے تولنے کی وجہ سے معاشرے کانظام فاسداور خراب ہوجاتا ہے۔

ناپ تول میں کمی کرنے والا مومن نہیں

آیات قرآنی سے ا ستفادہ ہوتا ہے کہ کم ناپنے تولنے والا آخرت اور روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اگر وہ قیامت کا ایمان ویقین رکھتا ہوتا، بلکہ گمان بھی رکھتا ہوتا تو اسے احساس ہوتا کہ جتنا مال اُس نے بے ایمانی کر کے کم دیا ہے اس کا قیامت کے دن حساب ہوگا۔ اس مال کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگریہ احساس ہوتا تو وہ کبھی ایسی خیانت نہ کرتا اگر ایمان ہو تو وہ یہ خیال رکھتا کہ اگرچہ وہ حقدار کو غافل کر کے اسے مطلوبہ مال سے کم لے سکتا ہے، مگر رب العالمین توحاضروناظرہے۔

کہتے ہیں کہ ایک بت پرست قصائی ہمیشہ لوگوں کو تول اور وزن سے کچھ زیادہ ہی دیتا تھا لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے اوپر کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے اوپر ایک بت رکھادیکھا ۔ قصائی نے کہا " میں اس کی خاطر زیادہ دے دیتاہوں! " ایک اور بت پرست دوکاندار کا واقعہ ہے کہ جب بھی وہ وزن کرنا چاہتا تھاتو تولنے سے پہلے وہ اپنے بت کودیکھ لیا کرتا تھا تاکہ کم نہ تولے ۔ حضرت یوسف اور زلیخا ایک کمرے میں تنہا تھے تو زلیخانے کمرے میں رکھے ہوئے بت پراپنا مقنع ڈال دیا حضر ت یوسف علیہ السلام نے فرمایا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ "

اس نے کہا: "مجھے اس سے حیا آرہی ہے ! " حضر ت یوسف علیہ السَّلام نے کہا: آپ ایک ایسے بت سے حیا کررہی ہیں جس میں کچھ شعور نہیں ہے اور جو انسان کے ہاتھوں کابناہواہے پس کیوں کر میں اس خدا ئے سمیع و بصیر سے حیا نہ کروں جوحاضر وناظر ہے ! " یہ فرما کر وہ وہاں سے بھاگے اور گناہ میںآ لودہ نہ ہوئے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بت پر ست لوگوں کو تو بے شعور پتھر کے بتوں کے سامنے گناہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن افسوس ، مسلمانوں کو خدائے حاضر وناظر سے شرم نہیں آتی !

پانچ گناہ اور پانچ مصیبتیں

تفسیر منہج الصادقین میں یہ حدیث لکھی ہے کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ پانچ گناہوں کے نتیجے میں پانچ قسم کی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ہر گناہ کے نتیجے میں ایک خاص مصیبت ہوتی ہے ۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ :مَانَقَضَ قَوْمُ العَهْدَ اِلَّا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ عَدُوَّهُمْ " کسی قوم کے لوگ وعدہ ،خلافی اور عہد شکنی کرتے ہیں تو خدا ضرور ان پر ان کے دشمنو ں کومسلط کر دیتا ہے۔ "

وَمَا حَکَمُوْا بِغَیْرِ مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَّا فَشَافِیْهِمُ الْفَقْرُ

"لوگ جب خدا کے نازل کئے حکم کے برخلاف حکم دیتے ہیں تو ضرور ان میں غربت عام ہوجاتی ہے۔ "

وَمَاظَهَرَتِ الْفَا حِشَةُ اِلَّا فَشَافِیْهِمُ الْمَوْتُ ۔

"فحاشی جب کھلے عام ہوجاتی ہے تو ضرور شرح الموت بڑھ جاتی ہے ۔"

وَلَاطَفَّفُوْا الْکَیْلُ اِلَّا مَنَعُوْا النَّبَاتِ وَاَخَذُوْ البِالسِّنیْنَ

"لوگ جب ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ضرور نباتات اور زراعت میں کمی ہوجاتی ہے اور رزق کی فراوانی رُک جاتی ہے۔ "

وَلَا مَنَعُوْا لزَّّکوٰةَ اِلَّا حُبِسَ عَنْهُمْ الْقَطَرُ ۔

" اور لوگ جب ناپ تول میں کمی کردیتے ہیں تو بارش نہیں ہوتی ۔ "

کاروبا رکرنے والوں کو امیر المومنین کی نصیحت

امیر المومنین حضر ت علی علیہ السَّلام جب حکومت کے کاموں سے فاغ ہوتے تھے تو بازار کوفہ میں جاکرفرماتے تھے:( یَاَیُّهاالناَسُ اتَّقُوْ االلّٰهَ وَاَوْفُوْاالْمِکْیاَلَ وَالْمِیْزَانَ بِالقَسْطِ وَلَاتَبْخَسُوْ النّاسُ اتّقُوْ اللّٰهَ وَاَوْفُوْالْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَاَتَبْخَسُوْ الناسَ اَشْیَاءَ وَلَا تَعْثَوْافِیْ الْاَرضِ مُفْسِدِیْنَ ) ۔

"اے لوگو! خدا سے ڈرو ۔ پورا پورا انصاف کے ساتھ ناپا تو لا کرو ۔ لوگوں کوان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فسادنہ پھیلاو ۔"

ایک دن حضرت علی نے بازار کوفہ میں ایک شخص کو دیکھیا جو زعفران بیچ رہا تھا وہ یہ چالاکی کرہا تھاکہا پنا ہاتھ تیل سے چکنا کر کے ترازو کے اس پلڑے پر لگاتا رہتا تھا جس میں زعفران رکھی جاتی تھی ،۔ حضرت علی علیہ اسَّلام نے یہ دیکھا کہ اس کی ترازو درست نہیں ہے تو ترازو میں سے زعفران کو اٹھالیا۔ پھر فرمایا:۔

اَقِمِ الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ ثُمَّ ارْجَحْ بَعْدَ ذٰلِکَ مَاشِئْتَ

" پہلے ترازو کو برابر کر کے ٹھیک کر و، پھر اگر چاہو تو اس کے بعد کچھ زیاد ہ دے دیا کرو۔"

آگ کے پہاڑوں کے درمیانا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ : "جو شخص ناپنے تولنے میں خیانت کرے گا اس کو دوزخ کے نچلے طبقہ میں ڈال یدا جائے گا جہاں اس کی جگہ آگ کے دو پہارڑوں کے درمیان ہوگی۔ اس سے کہا جائے گا کہ ان پہاڑوں کا وزن کرو! وہ ہمیشہ اس عمل میں مشغول رہے گا۔

تفسیر منہج الصادقین میں یہ بھی لکھا ہے کہ مالک نامی ایک شخص کاہمسایہ جب بیمار ہوا تو وہ اس کی عیادت کے لئے گیا ۔ مالک کہتا ہے کہ: میں نے اس کو نزع کے عالم میں دیکھا ۔اس عالم میں وہ چلّارہا تھا کہ : آگ کے دو پہاڑ مجھ پر گرنے والے ہیں ! " میں نے اس سے کہا : " یہ تمہارا محض خیال ہے۔ " اس نے کہا : " نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ حق ہے ۔ اس لئے کہ میرے پاس دو قسم کے ترازو تھے ۔ ایک سے کم تول کر لوگوں کو دیتا تھااور ایک سے زیادہ تول کرخود کھ لیتا تھا۔یہ اسی کی سزاہے۔

کم گن کردینا بھی حرام ہے

جس طرح ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے اسی طرح کم گن کردیابھی حرام ہے۔ وہ چیز جو ناپ کر بیچی جاتی ہیں جیسے کپڑا اور زمین وغیر ہ اگر ایک سینٹی میڑ بھی اس میں کمی کی گئی تو یہ بھی گناہ اور حرام ہے۔ بالکل اِسی طرح وہ چیزیں جنہیں گن کربیچا جاتا ہے جیسے انڈا اور بعض پھل وغیرہ اگر اسے کم کر دیا گیا اور لینے والا نہ سمجھ سکا تو ایسا کرنے والے کو بھی ناپ تول میں کمی کرنے والا کہا جائے گا۔ ۔یہی شیخ انصاری نے کتاب " مکاسب ِ محرمہ" میں لکھا ہے۔

کم بیچنے والا خریدار کا مقروض ہے

جتنے مال کی بییچنے والے نے کمی کی ہو اتنا مال اس کے ذمّے باقی رہتاہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اتنا مال بھی خریدار کودے دے اور یہ واجب ہے۔ اور اگر خریدار مرچکا ہو۔ تو خریدار کے وارثوں کے دے دے اور اگر خریدار کو وہ پہچانتا نہ ہو تو (حاکم ِ شرع سے احتیا طًا اجازت لے کر اس مال کے اصل حقدار (خریدار ) کی جانب سے اتنا مال صدقہ دیدے۔

اگر یہ معلوم نہ ہو کہ مال میں کتنی کمی ہوئی ہے تو بیچنے والے کو چاہئے کہ خریدنے ولاے سے مصالحت کرلے اور اسے کچھ مال دے کر یاایسے ہی راضی کرلے۔ اگر خریدا ر فوت ہوچکا ہو تو اس کے وارثوں کو راضی کرلے ۔ اور اگر خریدار کاپتہ نہ ہو تو حاکم شرع کو راضی کر لے۔

دھوکہ بازی بھی کم فروشی ہے

کم بیچنے کی حقیقت یہ ہے کہ جتنے مال کا معاملہ ہوا ہے آدمی وہ پورا مال خریدار کونہ دے، بلکہ کم دے ۔اسی طرح دھوکہ بازی کرنابھی ہے جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کومعلوم نہیں ہوتاکہ اسے کم دیا گیا ہے ۔ جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کم دیا گیا ہے اسی طرح جب آدمی اچھی چیز کے ساتھ کچھ بُری چیز ملاکر دھوکے سے بیچ دیتا ہے تو بھی خریدارکو معلوم نہیں ہوتاکہ اس کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے دھوکہ بازی میں اگرچہ وزن برابر ہو، لیکن چونکہ دھوکہ کیا گیا ہے اس لئے حرام ہے ۔ مثلاً دوکاند ار نے ایک سو گندم بیچنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اس نے ۵ کلو مٹی ملا کر کل سو کلو تول دیا اسی طرح اس نے گویا ۹۵ کلو بیچا اور پانچ کلو گندم کم دیااس طرح اس دوکاندار نے ایک من دودھ میں پانچ سیر پانی ملا دیا تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح اگر دوکاندار نے ۱۰ کلو گھی دینے کی بجائے پونے دس کلو دیا اور گھی کی تہہ میں ایک پاو کے وزن کا پتھر ڈال دیا تو یہ بھی دھوکا بازی ہے۔

اسی طرح گوشت والے نے معمول سے زیادہ ہڈی شامل کردی تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح سبزی وغیر ہ میں وزن بڑھانے کے لئے کافی پانی ملا دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ ایسے تما م کام کم بیچنے کے زُمرے میں آتے ہیں ۔ اور گناہ کبیرہ ہیں ! اگرچہ دوکاندار نے برابرتولا ہو۔

ملاوٹ حرام ہے

اسی طرح بڑھیا مال کی جگہ گھٹیا مال دھوکے سے بیچ دینا حرام ہے ۔ پس اعلیٰ گندم کی جگہ درمیانی درجے کا گندم دے دینا یا اعلٰی گندم میں دوسرے قسم کاگندم بھی ملاکر دے دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح خالص گھی کی تہہ میں عام گھی ڈال کردے دینا بھی حرام ہے۔

شیخ انصاری " مکاسب محرمہ " میں فرماتے ہیں:

ملاوٹ کے حرام ہونے کے سلسلے میں جو روایت میں جو روایات موجو دہیں وہ متواتر ہیں ۔ مثلًا شیخ صدوق نے رسول سے روایت نقل کی ہے کہ :مَنْ غَشَّ مُسْلمًِا فِیْ بَیْعٍ اَوْ شَرَاءٍ فَلَیْسَ مِنّاَ وَیَحْشُرُ مَعَ الْیَهْوْدِ یَوْمَ الْقِیاِ مَةِ ، لِاَنَّه مَنْ غَشَّ النّاس َ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ یعنی " جو شخص بیچنے یا خریدنے میں کسی مسلمان کو ملاوٹ کا مال دے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا وہ قیامت کے دن یہودیوں کے ساتھ ہوگا۔ اس لئے کہ جو شخص لوگوں کوکم ملاجوٹکرکے مال دیتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔!"

یہاں تک کہ آنحضرت نے فرمایا(اِلیٰ اَنْ قَالَ ) وَمَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنّاَ " جوشخص ہمیں جوملاوٹ کر کے مال دے تووہ ہم میں سے نہیں ہوگا! "قالَهَا ثَلاَثًا آنحضرت نے یہ جملہ تین مر تبہ دہرایا ۔ پھر فرمایا :

وَمَنْ غَشَّ اَخَاه الْْمُسْلِمََ نَزَعَ اللّٰهُ بَرَکَةَ رِزْقِه وَاَفْسَدَمَعِیْشَتَه وَوَکَّلَه اِلیٰ نَفْسِه (کتاب " عقاب الاعمال" )

"اور جوشخص اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ملاوٹ کا معاملہ کرے گا خدا تعا لیٰ اس کے رزق سے برکت ہٹالے گا، اس کی معاشی حالت تباہ کردے تا، اور اس کو اس ے حال پرچھوڑدے گا!"

آقائے عراقی کی کتاب " دار السلام " کے صفحہ ۳۰۹ پر یہ عبرتناک قصہ موجود ہے کہ :

مجھے ثقہ اور عادل شخص آقائے ملّا عبدالحسین خوانساری نے یہ واقعہ سنایا کہ کربلا کا ایک معتبر عطر فروش بیمار ہوگیا ۔ اس نے شہر کے تمام طبیبوں سے علاج کروا ڈالا مگر سب اس کے علاج سے عاجز ہوگئے ۔ اس نے پنا تمام مال اپنے علاج میں خرچ کردیامگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔

میں نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ وہ چیز بھی بیچ دو اور خرچ چلاو ! یعنی وہ ایک ایک کر کے گھر کا سامان بیچنے پر بھی مجبو رہوگیا۔ وہ کہ رہا تھا : "سب بیچ دو" مجھے کچھ نہیں چاہیئے یا تو میں مرجاوں گا یا ٹھیک ہو جاوں گا ! " میں نے اس سے کہا کہ : "آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ " اس ایک سرد آہ لی اورکہا: " ابتدا میں میرے پاس معقول سرمایہ نہیں تھا ۔ میرے پاس اتنا جو سرمایہ جمع ہوگیا تھا اس کاسبب ی تھا کہ کئی سا پہلے کربلامیں ایک خاص قسم کا بخار یا زکام وباکی شکل میں پھیل گیا تھا جس کا علاج طبیبوں نے لیموں کا خالص رس تجویز کیا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کربلا میں لیموں کا رس کم پڑنے لگا اور مہنگا ہونے لگا ۔ میں نے لیمو ں کے رس میں چھاجھ کی ملاوٹ شروع کردی اور مہنگی قیمت پراسے بیچا۔ پھر یہ حال ہواکہ کربلا کہ دیگر دوکانو ں میں لیموں کا رس ختم ہوگیا لیکن ملاوٹ کی وجہ سے میرے پاس باقی رہا۔ شہر کے دوکاندار اسلسلے میں لوگوں کو میرے پاس بھیجنے لگے پھر میں نے چھاچھ ہی میں رنگ اور کھٹائی ملا کر اسے لیموں کا رس ظاہر کیا اور بیچنے لگا ۔

ایسی ہی ملاوٹ ہی کے سبب سے میں کافی مالدار ہوگیا تھا اب یہ حال ہوگیا ہے کہ میرا تمام سرمایہ ختم ہوچکاہے ۔ اور گھر میں بیچنے کے قابل کوئی اور چیزبھی نہیں رہی ہے ۔ میں گھر کی تمام چیزیں بھی نکال رہا ہوں کہ سب حرام کی کمائی کاثر ہے۔ شاید حرام مال میرے پاس نہ رہے تو میں اس بیماری سے نجات پا جاوں!"

اس بات کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ وہ شخص دنیاکوچ کر گیا ۔ اس کی گردن درحقیقت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی ج کے ساتھ اس نے ملاوٹ کا معاملہ کیا تھا۔

حضر ت امام محمّد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مدینہ منورہ کے بازار سے گز رہے تھے۔ ایک گندم فروش سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : تمہارا اچھا گندم ہے" پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گندم کے اندر ہاتھ ڈالا تو اندر سے خراب قسم کا گندم نمودار ہوگیا ۔ یہ دیکھ کر آنحضر ت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :مَااَرئٰکَ اِلَّا وَقَدْ جَمَعْتَ خِیَا نَةً وَّ غِشًّا۔ (کتاب "عقاب الاعمال ") یعنی : میں تو یہی دیکھ رہا ہوں کہ تم نے خیانت اورملاوٹ کا سامان کرلیا ہے!"

علّامہ حلّی یہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ : ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق سے کہا: " ایک شخص کے پاس دو قسم کا مال ہے، ایک مہنگا اور اچھا ، جبکہ دوسرا گھٹیا اور سستا۔ اگر وہ ان دونوں کو مخلوط کرلے اور ایک خاص قیمت مقرر کر کے بیچے تو کیسا ہے؟"

حضر ت نے فرمایا(فَقَالَ ) لَا یَصْلَحُ لَه اَنْ یَغِشَّ الْمُسْلِمِیْنَ حَتٰی یُبَیِّنَه (کتاب " عقاب الاعمال" ) اُس کے لئے صحیح نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو ملاوٹ والا مال بیچے ۔ ہاں اگر وہ بتادے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو صحیح ہے۔ "

داود ابن ِسرجان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا : "میرے پاس دو قسم کی مشک تھی ۔ایک گیلی اور دوسری خشک ، میں نے گیلی اور تازہ مُشک بیچ دی ہے لیکن لوگ سوکھی مُشک اسی قیمت پرنہیں خریدتے ہیں ۔ آیا جائز ہے کہ میں اس کو تر کروں تاکہ وہ بک جائے؟ امام نے فرمایا : "جائز نہیں ہے ہاں اگر تم خریدارکو بتادو کہ تم نے ترکیا ہے تو اور بات ہے۔"

خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حق میں کمی

آدمی کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ اور ملاوٹ یا ناپ تول میں کمی کرے، بلکہ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، اَئمہ اور تمام مخلوقِ خدا کے حقوق کا پورا خیال کرے اور کسی قسم کے فرض میں کمی اور کوتاہی نہ کرے۔

خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمّے بندے کا جو حق لیا ہے اس میں وہ کوتاہی نہیں کررہا ہے۔ مثلًا خدا بندے کو روزی دے رہا۔ بے شمار قسم کی نعمتیں اسے عطا کرہا ہے۔ اُس کی فردیاد کو سُن رہا ہے اور بندے ہی کی مصلحت دیکھ کر اس کی دعا قبول کررہا ہے، تو بندے کو بھی چاہیے۔کہ وہ خدا کا حق ادا کرے ۔ اس کی نعمتوں کا شک بجالائے اس کی نافرمانی نہ کرے اور تمام فرائض بخوبی انجام دے ۔ پس شیطان کااور نفسانی خواہشات کوخدا کا شریک قرار دیے دینے والا اور خدا کی نافرمانی سے منہ نہ موڑنے ولاا شخص خدا کا حق اد انہیں کررہا ہے۔ ایسی صورت میں توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ "یاالله " کہے گا تو فوراً خدا "لبیک " کہے گا۔ جب دعا قبول ہونے میں تاخیر ہونے لگتی ہے تو بعض لوگ خدا سے ناراض ہونے لگتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ خودخدا کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرہے ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ بندوں سے فرماتا ہے:

( وَ اَوْ فُوْ ابِعَهْدِیْ اُوْفِ بِعَهْدِکُمْ ) (سورئہ بقرہ ۲: آیت ۴۰)

"تم لوگ مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو اگر تم ایسا کرو گے تو میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا ! " اگر اس ے با وجو د خدا عطا کرے تو یہ اس کا فضل ہے ۔

دعائے ابو حمزہ ثمالی نے حضر ت امام زین العابدین علیہ السلام فرماے ہیں :

اَلْحَمدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ اَدْعُوْه فیُجِْبُنیِْ وَاِنْ کُنْتُ بَطِیْئًا حِیْنَ یَدْعُْوْنیِْ "تمام تعریف ے اُس خدا کی جس کو میں پکارتا ہوں تو و ہ مجھے جواب د یتا ہے ، ا گرچہ جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دینے میں سُستی کرتا ہوں۔

اَلْحَمدُ لِلّٰهِ الَّذیْ اَسْئَلُه فَیُعْطِیْنِیْ وَاِنْ کُنْتُ بَخِیْلًا حِیْن یَسْتَقْرِضْنِیْ "تمام تعریف ہے اُس خدا کی جس سے میں مانگتا ہوں تو وہ مجھے عطا کردیتا ہے اگر وہ مجھ سے قرض مانگتا ہے تو میں کنجوسی کرتا ہوں۔ " (تمام فرائض قرض ہیں ، اور اس قرض کی ادائیگی خدا آخرت میں کرے گا۔ )

وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ یَحْلَمُ عَنِّیق حَتّٰی کَاَنیّ لاذَنْبَ لِیْ " اور تمام تعریف ہے اس خد اکی جو میرے گناہ دیکھ کر بھی حلم اوربردباری سے کام لیتا ہے ( اسی وقت عذاب نازل نہیں فرماتا) ۔ اتنے حلم سے کام لیتا ہے جیسے کوئی گناہ ہی نہیں ہوا۔ "

جواپنے لئے چاہتے ہو

سعدی شیرازی کہتے ہیں کہ :

بَبری مالِ مسلمان وچومالت یرند

بانگ وفریاد برآری کہ مسلمانی نیست

(تم مسلمانوں کے مال ہتھیالیتے ہو، مگر جب ہتھیا لیا جاتا ہے تو واو یلا اور فریا د کرنے لگتے ہو کہ کوئی مسلمان ہی نہیں ہے !)

آدمی جب یہ پند نہیں کرتا ہے کہ اس کے ساتھ خیاانت ، دھوکہ بازی اور مالوٹ یا ناپ تول میں کمی سے کام لیاجائے تو اُسے بھی چاہئے کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے کو پسند نہ کرے ۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے اور روایتوں کی رو سے انصاف یہی ہے کہ آدمی دوسروں کے لئے بھی وہی چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہو۔

عدل وانصاف سب سے بہتر ہے

حضرت امام جعفر صادق کاا رشاد ہے کہ:

سَیدُ لاْاَعْمالِ ثَلا ثَةُُ " بہترین کام تین ہیں ۔ "

انْصَافُکْ النَّاس َ مِنْ نَفْسِکَ حَتٰی لا تَرْضیٰ بِشَیءٍٍ الا رَضیْتَ لَهُمْ مِثْلَه :

"تمہاری طرف سے لوگوں کوپورا انصف ملنا چاہیے ۔ یہاں تک کہ اپنے لئے جو کچھ تم پسند کرنتے ہو وہی تم دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔"

وَمُواسَتُ الْاَخِ فِی اْ لَمالِ "تمہیں اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ مالی تعاون کرناچاہیے۔ "

وَذِکْرُاللّٰهِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ ، لَیْسَ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ فَقَطْ وَلٰکِنْ اذَا وَرَدَعَلیْْکَ شَیءُ اَمَرَ اللّٰه بِه اَخَذْتَ بَه وَاِذَ ا اَوْرَدَعَلَیْکَ شَیْءُ نَهٰی اللّٰهُ عَنْْه تَرَکْته (کتاب" کافی ")

"اور ہر حال میں تمہیں خدا کا ذکر کرتے رہنا چاہیئے ۔ وہ زکر فقط سُبْحَانَ اللّٰہِ اوراَلْحَمْدُلِلّٰہِ نہیں ہے بلکہ (ذکر سے مراد خدا کو ہرحال میں یاد رکھنا ہے ) جب تمہراے سامنے کوئی ایسا کام آجائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے تو تمہیں وہ کام کر لینا چایئے اور جب تمہارے سامنے کوئی ایسا کام آجائے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے تو تمہیں وہ کام ترک کردینا چاہیئے۔ "

انصا ف کا ترازو

امیر المومنین حضر ت علی علیہ السَّلام اپنے فرزند حضر ت حسن مجتبی علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

یاَ بُنَّی اَجْعَلْ نَفْسُکَ مِیْزاناً فِیْما بَینْکَ وَبَیْنَ غَیْرِکَ فَاَجِبُ لِگَیْرِکَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ وَاَکْرِرهْ لَه تَکْرَهُ لَهَا

اے میرے بیٹے اپنی ذات کو پانے اور دوسرے کے درمیان انصاف کرنے کے لئے ترازو قرار دے دہ پس دوسروں کے لئے وہی پسند کرو جو تم پانی ذات کے لئے پسند کرتے ہو۔"

وَلاَ تَظْلِمْ کَماَ لاَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ

" دوسروں پر ظلم مت کرو جس طرح کہ تم یہ پسند نہین کرتے کہ تم پر ظلم کیا جائے۔

وَاَحْسِنْ کَمَا تُحِِبُّ اَنْ یُحْسَنَ اِلَیْکَ، وَاسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِکَ مَاتَسْتَقْبِح مِنْ غَیْرِکَ وَارض منَ النَّاس بمَا تَرْضَاه لَهُمْ منْ نَفْسکَ (نہج البلاغہ )

"دوسروں کے ساتھ ایسا ہی نیک سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا جائے دوسروں کے حق میں اپنے اس کا م کو براسمجھو جس کو تم دوسروں کی جانب سے اپنے حق میں برا سمجھتے ہو ۔ اور لوگوں کی ہر ایسی بات پر راضی رہو جیسی بات تم اپنی جانب سے دوسروں کے ساتھ کرکے راضی رہتے ہو۔"

ہر چیز کا پیمانہ ہوا کرتا ہے

سورئہ حدید میں ارشاد ہے:

( لَقَدْ اَرْ سَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَا تِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهَمُ الْکِتَبَ وَالْمِیْزَاَنَ لِیَقُوْمَ النَّاسَ بَالْقِسْطِ ) (سورئہ حدید ۵۷ : آیت ۲۵)

" ہم نے یقیناً اپنے پیغمبروں کو واضح روشن معجزے دے کربھیجا اور انکے ساتھ ساتھ کتاب اور انصاف کی ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہے ۔ " عدل وانصاف کو خدا وند تعالٰی نے ترازوکہا ہے۔

"خداوند تعالی نے یہ ترازو یا پیمانہ ہر چیز کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔ انسا ن کے اعتقادات اور حق و باطل کو بھی اسی کے ذریعے پر رکھا جاتا ہے ۔ اچھے اور بُرے اخلاق، بھلی بُری صفات اور اچھے یا برے کاموں کے درمیان تمیزبھی انصاف کے پیمانہ سے دی جاتی ہے قول وفعل اور اعتقاد وعمل کے ہر سلسلے میں اگر آدمی انصاف سے کام لے تو عدل ِ حقیقی حاصل ہوجاتا ہے۔

علی(علیہ السلام) میزان اعمال ہیں

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام کی ایک زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ : السَّلامُ عَلٰی مِیْزَان الْاَعْمالِ(مفاتیح الجنان) " اعمال کے میزان اور ترازو پر سلام ہو!" حق اور باطل کے درمیان تمیز دینے خیر اور شر کے درمیان فرق کرنے اور اچھے اور بُرے اخلاق اور کاموں کے پہچاننے کا وسیلہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ آنحضرت کے بعد قرآن و عترت طاہرین علیہم السّلام، خصوصاً حضرت علی علیہ السّلام اس تمیز اور پہچان کا وسیلہ ہیں۔ اہلِ بیت کے قول و فعل اور اخلاق و کردار کو دیکھ کر ہم بھلے اور بُرے میں تمیز کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے عقائد و اعمال ان کے مطابق ہیں تو درست ہیں، اور اگر ان کے مطابق نہیں ہیں تو غلط ہیں۔

عدل و انصاف کی میزان یہ ہے کہ آدمی نہ تو افراط کرے، نہ تفریط۔ نہ تو حد سے بڑھ جائے اور نہ ہی حد سے پیچھے رہ جائے۔ عدل کی میزان بہت دقیق ہے اور بال سے زیادہ باریک حساب بھی بتا دیتی ہے عدل کی راہ تشخیص دینے کے بعد عدل پر برقرار رہنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ بس جو شخص عدل کی راہ دیکھ لینے کے بعد اس پر ثابت قدم رہتا ہے، خدا اس کی مدد کرتا ہے اور عدل پر قائم رہنے کی توفیق دیتا ہے۔ ایسا ہی شخص قیامت میں قائم ہونے والی میزان اور ترازو کے مطابق اچھا ثابت ہوگا اور پُل صراط جیسے دشوار راستے سے جلدی اور بآسانی گزر جائے گا۔ جبکہ دنیا میں میدان ِ عدل کا لحاظ نہ کرنے والا شخص آخرت میں بھی بُرا ثابت ہوگا اور پلِ صراط پر لرزے گا اور دوزخ میں گر پڑے گا۔ ارشاد ہے کہ:

( وَاِنْ مِنْکَمْ اِلَّا وَارِدُهَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتماً مَّقْضِیًّا ثُمَّ نُنَجِّیْ الّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِیْنَ فِیْها جِثیًّا ) ۔ (سورئہ مریم ۱۹: آیت ۷۱ اور ۷۲) " اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے (کیونکہ پل صراط اسی پر ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کا حتمی فیصلہ اور لازمی طور پر پورا ہونے والا وعدہ ہے پھر ہم پرہیز گاروں کو بچا لیں گے اور نافرمانوں کو اسی جہنم میں گھٹنے کے بل چھوڑ دیں گے!)

خدا ہم سب کو عدل و انصاف کی توفیق دے، ہمیں پرہیزگاروں میں شامل کرے اور ہمیں جہنم میں گرنے سے بچنے کے قابل کردے۔