5%

آیت ۷۵

( وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ )

اور اسى طرح ہم ابراہيم كو آسمان و زميں كے اختيارات دكھلا تے ہيں اور اس لئے كہ وہ يقين كرنے والوں ميں شامل ہو جائيں (۷۵)

۱_ خداوند تعالى نے ابراہيمعليه‌السلام كو آسمانوں اور زمين پر اپنى سلطنت (ملكوت) دكھائي_

و كذلك نرى ابراهيم ملكوت السموات والارض

''ملكوت'' كا معنى ''ملك'' ہے اگر چہ اس معنى ميں زيادہ تاكيد ہے_ آيت شريفہ ميں ملكوت سے مراد، خداوندعالم كى جانب انتساب كے لحاظ سے اشياء كا وجود ہے اور ملكوت كے مشاہدہ سے مراد، اس حالت (انتساب) ميں موجودات كو ديكھنا ہے_ مزيد وضاحت كے ليے تفسير الميزان كى جانب رجوع كيجيئے_

۲_ ملكوت كا مشاہدہ (يعني) شرك كے بطلان اورگمراہى كو كھلى آنكھوں سے ديكھنا اور عالم ہستى ميں توحيد كو محسوس كرنا

انى ارك و قومك فى ضلل مبين و كذلك نرى ابراہيم ملكوت السموات

۳_ ابراہيمعليه‌السلام آسمانوں اور زمين كے ملكوت كو ديكھنے كى وجہ

سے بت پرستى كى گمراہى كو عياں اور واضح طور پر ديكھ رہے تھے_

انى ارى ك و قومك فى ضلل مبين و كذلك نرى ابراهيم

جملہ ''و كذلك نري'' احتمالا گذشتہ آية ميں ابراہيم كے فرامين كا سبب بيان كرنے كے ليے ہے_

۴_ ابراہيم(ص) كو آسمانوں اور زمين كے ملكوت (يعنى خداوند عالم كى سلطنت و مالكيت) دكھانے كا سب سے بڑا مقصد، ان كا اہل يقين كے زمرے ميں داخل ہونا تھا_و كذل نرى ابراهيم ملكوت السموات والارض و ليكون من الموقنين

جملہ ''و ليكون ...'' محذوف پر عطف ہے يعنى ابراہيمعليه‌السلام كو ملكوت دكھانے كے كچھ مقاصد تھے ان ميں سے ايك يہ تھا كہ وہ اہل يقين ميں سے ہوجائيں دوسرے مقاصد ميں سے فقط اس مقصد