آیت ۱۸
( قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْؤُوماً مَّدْحُورأى لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لأَمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ )
فرمايا كہ يہاں سے نكل جا تو ذليل اور مردود ہ ہے اب جو بھى تير اتباع كرے گائيں تم سب سے جہنّم كووبھردوں گا
۱_خداوندمتعال نے ابليس كو تحقير و سرزنش اور ذلت و رسوائي كے ساتھ اس كے بلند مقام و منزلت سے نكالا_
قال اخرج منها مذء وما مدحورا
''مدحور'' كا معنى ذلت و رسوائي كے ساتھ نكالا گيا ہے (لسان العرب)
۲_ دوزخ، ابليس، اور اس كے پيروكاروں كا حتمى ٹھكانہ_لمن تبعك منهم لاملان جهنم منكم اجمعين
۳_ ابليس كا تكبّر، نافرمانى اور (دوسروں كو) بہكانا اور گمراہ كرنا، اسكے دوزخ كى آگ ميں گرفتار ہونے كا باعث ہے_
مامنعك الاتسجد ...لاملان جهنم منكم اجمعين
۴_ ابليس كى پيروى كرنا اسى جيسا بن جانے كا باعث بنتاہے_لمن تبعك منهم لاملان جهنم منكم اجمعين
ابليس اور اس كے پيروكار انسانوں كو ايك ہى ضمير ''منكم'' سے خطاب كيا گيا ہے_ جبكہ گذشتہ جملے ميں فقط ابليس مخاطب تھا_ اس سے پتہ چلتا كہ ابليس كى پيروي، انسان كو اس كا ہم جنس بنا ديتى ہے_
۵_ جہنم، ابليس اور اس كے گروہ ميں شامل ابليسى پيروكاروں سے بھرى پڑى ہوگي_لمن تبعك منهم لاملان جهنم منكم
''منكم'' ميں خطاب ہوسكتاہے يہ نكتہ بتانے كے ليے ہو كہ انسان فقط ابليس كى پيروى كرنے كى وجہ سے جھنم ميں اس جيسا مقام نہيں پائے گا بلكہ اس قسم كى پيروى كا تقاضا يہ ہے كہ انسان اور ابليس ہم جنس اور ہم فطرت ہوجائيں _ يہاں تك كہ ابليس اور اس كے پيروكاروں كو ايك ہى ضمير سے خطاب كيا جانے لگے_
۶_ آدمعليهالسلام كے سامنے سجدہ كرنے سے نافرمانى كرنے كے سلسلے ميں خداوندمتعال كا ابليس سے بلاواسطہ گفتگو اور بات چيت كرنا_