7%

آیت ۹۶

( فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

اس كے بعد جب بشير نے آكر قميص كو يعقوب كے چہرہ پر ڈال ديا تو دوبارہ صاحب بصارت ہوگئے اور انھوں نے كہا كہ ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ ميں خدا كى طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ہو(۹۶)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا پيراہن لے آنے والا بشارت دينے كے عنوان سے قافلہ كے دوسرے افرادكى نسبت جلدى سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا _فلما أن جاء البشير

(بشير) بمعنى اسم فاعل (مبشر) اس كو كہا جاتاہے جو خوشى كے پيغام كو پہنچائے_ قابل ذكر ہے كہ اگر (بشير) بھى فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ہمراہ حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچاہوتا تو سب سے مناسب يہ تھا كہ جملے كو اس طرح ذكر كيا جاتا (فلماّ أن جاء القاه البشير على وجهه ) ليكن كہا گيا (فلما أن جاء البشير ) اس معنى كو ظاہر كرتا ہے كہ خوشى كى خبر دينے والا دوسرے افراد كى نسبت پہلے پہنچ گيا تھا_

۲_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے قاصد نے اپنے ہمراہ يوسفعليه‌السلام كے پيراہن كولا كر حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے كى يعقوبعليه‌السلام كوبشارت دى _فلما أن جاء البشير

بشارت اور مسرت بخش خبر كا مصداق، حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے اور انكى حكومت كى خبر نيز ان كا اپنے ہمراہ معجزہ نما پيراہن كا ہوناہے_ يہ بات قابل ذكر ہے كہ آيت نمبر ۹۳ ميں ذكر جملہ (اذھبوا بقميض) يہ بتاتا ہے كہ بشير وہ برادران يوسف ميں سے ايك تھا نہ كہ ان كے علاوہ كوئي دوسرا شخص

۳_بشارت دينے والے كا پہلا كام،حضرت يعقوبعليه‌السلام كى ملاقات كے وقت پيراہن يوسفعليه‌السلام كوحضرت يعقوبعليه‌السلام پر ڈالنا تھا_فلما أن جاء البشير ألقاه على وجهه

جملہ(ألقاه ...) ( فلما أن جا البشير) كا جواب ہے_ لہذا پيراہن كا ان پر ڈلنا فقط اسكے آنے اور بشارت دينے سے متحقق ہوگيا _ اسميں (أن) كا حرف زائدہ ہے اور تاكيد كرتا ہے كہ اس كے آنے اور پيراہن كے ڈالنے كے درميان كوئي فاصلہ نہيں ہے _