5%

کرنے اور اس طرح کے دوسرے گناہوں کے بجالانے کو جائز اور صحیح قرار دیتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر گناہ در حقیقت ایک قسم کی خودخواہ یا ور خودپسند ہے کہ جو اس طرح اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے مثال کے طور پر ظلم اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا خودخواہی اور خودپسندی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے_

اسی طرح جھوٹ غیبت بد زبانی عیب جوئی حسد انتقام لینا یہ سب پستیاں خود اور خودپسندی شمار ہوتی ہیں جو ان صورتوں میں نمایاں ہو کر سامنے اتی ہیں اسی لئے تمام برائیوں کی جڑ خودپسندی کو قرار دیا جاتا ہے_

خودخواہی اور خودپسندی کے کئی مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ خود پرستی اور اپنے آپ کی عبادت کرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس بری صفت سے مقابلہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پیدا کرلیتی ہے اور ایک ایسے درجہ تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر اپنے نفس امارہ کو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے دیتی ہے اور عبادت کرنے اور خواہشات کے بجالانے میں اطاعت گذار بنا دیتی ہے_ خداوند عالم ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا قرار دے رکھا ہے اسے تو نے دیکھا ہے؟ _(۱۹۶)

کیا عبادت سوائے اس کے کوئی اور معنی رکھتی ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے معبود کے سامنے تواضع اور فروتنی کرتا ہے اور بغیر چون و چرا کے اس کے احکام اور فرمایشات کو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو واجب الاطائمہ قرار دیتا ہے اور اس کے سامنے تواضع اور فروتنی اور عبادت کرتا ہے بغیر چون و چرا کے اس کی فرمایشات کو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ کبھی موحد نہیں ہو سکتا_

تمام گناہوں کی جڑ دنیا طلبی ہے

آیات قرآنی اور روایات اہل بیت علیہم السلام میں دنیا کی بہت زیادہ مذمت وارد