یہ آیات اور روایات کہ جو بطور نمونہ ذکر ہوتی ہیں ان سے ذکر الہی کی قدر اور قیمت کو آپ نے معلوم کر لیا ہے_ اب یہ دیکھا جائے کہ ذکر خدا سے مراد کیا ہے؟
ذکر خدا کا مراد
یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر عبادت میں سے ایک بڑی عبادت ہے اور نفس کے پاک و پاکیزہ اور اس کی تکمیل اور سیر و سلوک الی اللہ کا بہترین وسیلہ ہے اب دیکھیں کہ ذکر خدا سے جو آیات اور روایات میں وارد ہوا ہے کیا مراد ہے_ کیا اس سے مراد یہی لفظی ذکر مثل سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ یا اس سے مراد کوئی اور چیز ہے؟ کیا یہ الفاظ بغیر باطنی توجہ کے اتنا بڑا اثر رکھتے ہیں یا نہ؟
لغت میں ذکر کے معنی لفظی ذکر کے بھی آئے ہیں کہ جو زبان سے کئے جاتے ہیں اور توجہ قلب اور حضور باطن کے معنی بھی آئے ہیں احادیث میں بھی ذکر ان دو معنوں میں استعمال ہوا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے مناجات کرتے وقت عرض کی کہ '' اے خالق_ اس کی جزاء اور ثواب کہ جس نے تجھے زبان اور دل میں یاد کیا ہو کیا ہے؟ جواب آیا اے موسی(ع) میں اسے قیامت میں عرش کے سایہ اور اپنی پناہ میں قرار دونگا_) ۳۵۹) '' اس حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ذکر لفظی جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبی ذکر دونوں میں استعمال ہوا ہے اور دوسری بہت سی روایات موجود ہیں کہ جن میں ذکر ان دونوں میں استعمال ہوا ہے لیکن غالبا اور اکثر ذکر کو توجہ قلبی اور حضور باطنی میں استعمال کیا گیا ہے اور حقیقی اور کامل ذکر ابھی یہی ہوا کرتا ہے_ خدا کے ذکر سے مراد ایک ایسی حالت ہے کہ خدا کو روح کے لحاظ سے دیکھ رہا ہو اور باطن میں جہاں کے خالق کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ خدا کو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے جانے جو شخص اس طرح کی حالت میں خدا کو یاد کرتا ہو تو و ہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے گا اور واجبات کو بجالائیگا اور حرام چیزوں کو ترک کرے گا_ اس معنی کے لحاظ سے اللہ کا ذکر آسان ہے_ امام جعفر صادق