5%

کرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے کمتر ہیں وہ اپنے اللہ کے ذکر کو ناچیز اور معمولی قرار دینے کے زیادہ سزاوار ہیں لہذا جو شخص اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک اللہ اسے توفیق نہ دے اور خود بندے کو یاد نہ کرے وہ اللہ کے ذکر کرنے پر قدرت نہیں رکھے سکتا_(۳۶۳)

جیسے کہ ملاحظہ کر رہے ہیں ان روایات میں قلبی توجہ اور باطنی حضور کو ذکر کرنے کا مصداق بتلایا گیا ہے نہ صرف قلبی خطور اور بے اثر ذہنی تصور کو بلکہ باطنی حضور جو یہ اثر دکھلائے کہ جس کی علامتوں میں سے اوامر اور نواہی الہی کی اطاعت کو علامت قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ لفظی اور زبانی ذکر و اذکارش لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غیرہ کے اللہ کے حقیقی ذکر کا مصداق نہیں ہیں بلکہ خود یہ کلمات بھی اللہ تعالی کے ذکر کا ایک مرتبہ اور درجہ ہیں علاوہ اس کے کہ یہ اذکار بھی قلب اور دل سے پھوٹتے ہیں_

جو شخص ان لفظی اذکار کو زبان پر جاری کرتا ہے وہ بھی دل میں گرچہ کم ہی کیوں نہ ہو خدا کی طرف توجہ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا کی طرف توجہ رکھتا تھا تب ہی تو اس نے ان اذکار کو زبان پر جاری کیا ہے_ اسلام کی نگاہ میں ان کلمات اور اذکار کا کہنا بھی مطلوب ہے اور ثواب رکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قصد قربت سے ہوں جیسے کہ ظاہری نماز انہیں الفاظ اور حرکات کا نام ہے کہ جس کے بجالانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے گرچہ نماز کی روح قلب کا حضور اور باطنی توجہ ہے_

ذکر کے مراتب

ذکر کے لئے کئی ایک مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے کمتر مرتبہ اور درجہ لفظی اور ززبانی ذکر سے شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ انقطاع کامل اور شہود اور فتا تک جا پہنچتا ہے_