5%

ہوں_ یہ یندے میرے حقیقی اولیاء ہیں یہ واقعی بہادر اور شجاع ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ زمین والوں کو ہلاک کردں تو ان کے وجود کی برکت سے زمین والوں سے عذاب کو دور کردیتاہوں_(۳۸۰)

خلاصہ خدا کو اپنی بندے کی طرف توجہہ کرنا ایک اعتباری اور تشریفاتی کام نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت ہے جو ان دو میں سے ایک توجیہہ کی جا سکتی ہے اگر چہ دونوں کو بھی اکٹھا کیا جا سکتا ہے_

خدا کا بندے سے محبت کرنا_

ذکر خدا کی آثار میں سے ایک اثر اور علامت خدا کا ایسے بندے سے محبت کا ہو جانا ہوتا ہے_ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ خدا کی یاد میں ہو اور خدا اور اس کے پیغمبر علیہ السلام کے احکام پر عمل کرنے والا ہو تو خدا بھی اس کے عوض ایسے بندے کو دوست رکھتا ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے '' اے لوگو اگر واقعاً خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ خدا بھی تمہیں دوست رکھے_(۳۸۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرے تو وہ اللہ تعالی کا مورد محبت قرار پائیگا_ جو شخص اللہ تعالی کی یاد میں بہت زیادہ ہو گا اس کے لئے دو برات کے نامے لکھ دیئے جائیں گے ایک دوزخ سے برات اور دوسرے نفاق سے برات_(۳۸۲)

اللہ تعالی کی بندے سے محبت کوئی اعتبار اور تشریفاتی امر نہیں ہوتا اور یہ اس معنی میں بھی نہیں ہوتی جو محبت بندے کو خدا سے ہوتی ہے_ انسان میں محبت کے ہونے کے معنی اس کا کسی چیز سے کہ جس کا وہ محتاج ہے ولی لگاؤ اور علاقمندی ہوا کرتی ہے لیکن خدا کے محبت کرنے کے ایسے معنی مراد نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی اللہ تعالی میں یہ معنی صحیح ہے_ خدا کے محبت کرنے کی یوں وضاحت کی جائے کہ خدا بندے پر اپنا لطف و کرم زیادہ کرتا ہے اور اسے عبادت اور توجہہ اور اخلاص کی زیادہ توفیق