16%

عنایت فرماتا ہے ک جس ذریعے کمالات اور قرب کے درجات کی طرف اسے جذب اور جلب کرتا ہے اور چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ راز اور نیاز کو سنے تو اسے دعا نماز ذکر اور مناجات کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور چونکہ اس کے تقرب کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لئے کمال تک رسائی کا وسیلہ فراہم کر دیتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے لہذا اس کے دل کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے اور توفیق دیتا ہے کہ وہ بہتر اور سریع تر اس کے مقام قرب کی طرف حرکت کرے_

اہم اثر:

اس مقام ذکر میں اس کے حاصل کرنیوالے کو بہت عالی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے کے لئے قلم اور زبان عاجز اور ناتوان ہے اور سوائے اس مقام تک پہنچنے والوں کے اور کوئی بھی اس سے مطلع نہیں ہو سکتا_

عارف اپنے نفس کے صاف اور پاک اور اپنے باطن کو تصفیہ کرنے عبادت اور ریاضت تفکر اور دائمی ذکر کرنے کے ذریعے اسے ایسے مقام تک پہنچتا ہے کہ وہ اپنی باطنی آنکھ اور کان کے ذریعے حقائق اور واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہیں سنتا ہے کہ جو ظاہری آنکھ اور کان کے ذریعے دیکھنے اور سننے کے قابل نہیں ہوتے_ کبھی کبھی وہ موجودات کی تسبیح اور تقدیس بلکہ ملائکہ کی تسبیح کو بھی سنتا ہے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسی دنیا میں زندگی کر رہا ہوتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے ساتھ معاشرت کر رہا ہو تا ہے لیکن اپنے اندر میں ایک اعلی نقطہ کو دیکھتا ہے اور کسی دوسرے جہان میں اس طرح زندگی کر رہا ہوتا ہے کہ گویا وہ اس جہان میں زندہ نہیں ہے دوسرے جہان کی دوزخ اور بہشت کا مشاہدہ کرتا ہے_ اور نیک اور صالح افراد اور فرشتوں سے ربط رکھتا ہے_ دوسرے جہان سے مانوس اور دوسری طرح کی نعمتوں کو پا رہا ہے لیکن وہ ان چیزوں کے بارے میں غالباً کسی سے ذکر نہیں کرتا کیونکہ