نماز کی بعد ظہر تک ہوا کرتا تھا اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے ابن ابی عمیر و جمیل و خربود کے بارے میں بھی ایسا نقل کیا گیا ہے_ نجف اشرف میں طالب علمی کے زمانے میں میرے ایک استاد تھے جو متقی طلبہ کے لئے مرجع تھے میں نے آپ سے سوال کیا آپ نے کو ن سے عمل کا تجربہ کیا ہے کہ جو سالک الی اللہ کے حق میں موثر اور مفید ہو؟ آپ نے فرمایا کہ دن اور رات میں اسیک طویل سجدہ بجا لایا جائے اور سجدہ کی حالت میں یہ کہا جائےلا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اور اس کے ذکر میں اس طرح توجہہ کرے کہ میرا خدا کسی پر ظلم کرنے سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ میں خود ہوں جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہوں_ میرے یہ استاد اپنے مریدوں اور علاقمندوں سے ایسے سجدہ کی سفارش کیا کرتے تھے اور جو بھی یہ سجدہ بجالاتا تھآ اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا کرتا تھا _ بالخصوص وہ حضرات جو اس سجدے کو بہت زیادہ طویل انجام دیتے تھے ان میں سے بعض اس ذکر کو سجدہ میں تکرار کیا کرتے تھے بعض تھوڑا اور بعض زیادہ تکرار کرتے تھے میں نے سنا ہے کہ ان میں سے بعض اس ذکر کو تین ہزار مرتبہ سجدہ میں پڑھا کرتے تھے_(۴۰۱)
شیخ نجم الدین کا دستور العمل
شیخ نجم الدین رازی لکھتے ہیں کہ اداب اور شرائط کے بغیر زیادہ ذکر کرنا مفید نہیں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتیب سے قیام کیا جائے اور جب سچے مرید کو سلوک الی اللہ کا دل میں درد پیدا ہوجائے تو یہ علامت ہوگی کہ اس نے ذکر سے انس پیدا کر لیا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پیدا ہوگئی ہے جو تمام مخلوق سے نامید ہو کر ذکر الہی کی پناہ میں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (یعنی اللہ کا ذکر کر اور تمام مخلوق کو چھوڑ دے کہ وہ اپنی لغویات میں کھیلتے رہیں) جب ذکر کو پے در پے بجالائے جو صحیح اور خالص توبہ کے بعد ہو اور ذکر کرنے کی حالت میں با غسل ہو اور اگر یہ نہ کر