ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_
اخلاص
اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے