کلام امام رضا علیہ السلام میں غدیر خم
غدیر خم
’’ غدیر ‘‘ کا معنی وہ نشیبی زمین ہے جہاں پر بارش کا پانی کچھ مدت کے لئے رکا رہتا ہو ۔ اور غدیر خم وہ گہرائی والی جگہ ہے کہ جہاں ان مسافروں کی گذر گاہ ہے جو مکہ اور دوسرے شہروں مثلاً مدینہ ، شام ، مصر اور عراق کی جانب جاتے تھے ۔ ایسی گہرائی والی زمین کہ جس میں دسیوں اور سینکڑوں چھوٹے اور بڑے پانی کے گڑھے موجود ہوں ۔ ایسی ریگ زار اور بے آب و گیاہ زمین ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو ان گہرائیوں میں پانی ذخیرہ ہوجاتا تھا جو پیاسے اور خستہ حال قافلے ادھر سے گذرتے تھے وہ اس ذخیرہ شدہ پانی سے مستفیض ہوتے تھے ۔
’’ غدیر خم ‘‘ ایک ایسی جگہ کا نام ہے جس کا کوئی اتا پتہ نہ تھا ۔ مگر بعض چرواہے اور قافلے سالار اس کے نام کو جانتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری حج کے بعد نام ’’ غدیر خم ‘‘ تاریخ اسلام کے حافظے میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہو گیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا آخری حج انجام دیا ۔
حج ادا کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد آپؐ کے ہمراہ مدینہ کی جانب رواں دواں تھی ۔
چھوٹے بڑے قافلے حجاز کے بیانوں میں سے گذرتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں کی جانب چلے جا رہے تھے ۔
مختلف قبیلوں کی لمبی لمبی صفیں قافلوں میں تبدیل ہو چکی تھیں اور ان ہی کے درمیان ایک قافلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی مدینہ کی طرف روانہ تھے ۔
ماہ ذی الحجہ کی ۱۸ (اٹھارہ) تاریخ ، جمعرات کا دن تھا کہ آسمانی پیام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا ۔ آپ کے اطرافیوں نے بھی جان لیا کہ فرشتہ وحی حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ نازل ہوئے ہیں تاکہ قرآن مجید کی آیات میں سے کوئی آیت پڑھیں ؟ ہاں یہ آیت کس چیز کے بارے میں ہے ؟ اور کس کے متعلق ہو سکتی ہے ؟ کیا اللہ تعالی حاجیوں کو حج کی قبولی کی نوید دینا چاہتا ہے ؟ یا احکام دین میں سے کوئی حکم بیان کرنا چاہتا ہے اور یا ۔۔۔۔ ؟
بہر حال وقت زیادہ نہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی کو دریافت کرنے کے بعد انتظار کرنے والوں کے سامنے ایک بہت ہی حیرت انگیز دستور دیا اور فرمایا : یہیں پر اسی جگہ رک جائیں ۔ پھر فرمایا :
جو قافلے پیچھے آرہے ہیں ان کا انتظار کریں تاکہ ہمارے ساتھ ملحق ہوجائیں اور کچھ سواروں کو روانہ کیا کہ جو کارواں آگے نکل چکے ہیں ان سے کہو واپس آجائیں ۔
تھوڑی دیر کے بعد تمام حاجیوں کے قافلے آپ ؐ کے گرد جمع ہوگئے جو مختلف قبیلوں ، شہروں اور طوائف میں بٹے ہوئے تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے ۔ اور سب حیرت زدہ تھے کہ کون سا ضروری مسئلہ پیش آیا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس گرم موسم میں کیوں حجاز کے تپتے ہوئے بیابان میں رکنے کا فرمان دیا ہے ۔
انتظار کی گھڑیاں ابھی طولانی نہ ہوئیں تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اونٹوں کے کجاووں سے ایک بلند منبر بنایا جائے ۔ اس کے بعد آپؐ منبر پر تشریف لے گئے اور آپؐ خدا کی حمد و ثناء کے بعد اقرار نبوت کا مسلمانوں سے عہد لیا کہ میں نے پیام الہی ان تک پہنچایا ہے اور نبوت کی ذمداری انجام دے دی ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کو یہ بھی خبر دی کہ یہ انکا آخری حج تھا کہ تم نے اپنے پیغمبرؐ کے ساتھ انجام دیا ، کیونکہ عنقریب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پروردگار کے حضور جانے والے ہیں اور اب اپنی امت سے جدا ہونے والے ہیں ۔
ہر چیز سے پہلے لازمی ہے کہ اس روز وہ آیت جو آپؐ نازل ہوئی تھی اسے لوگوں کے لیے تلاوت کریں : يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ سورہ مائدہ آیت ۶۷
’’ اے رسول جو تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر نازل ہوا اس کو پہنچا دے اگر اس کو نہ پہنچایا تو آپؐ نے اپنی رسالت کو ہی انجام نہیں دیا اور اللہ تجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بے شک اللہکافروں کی ہدایت نہیں کرتا ‘‘
یہ کونسا موضوع ہے جو رسول اللہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ؟ ابھی تک اس تذکرہ کیوں نہیں کیا ؟ اس کے بیان کرنے سے آپؐ خود بھی طرح سے فکر مند تھے !
آیت کا منظور نظر موضوع ۔ منظور نظر آیت ایک حلال یا حرام یا عمل عبادت تھا ؟ یا یہ مسئلہ ان امور سے زیادہ اہم تر اور تمام مسائل سے جدا تھا ؟ کیونکہ پیغمبرؐ نے ابھی تک تمام آیات اور احکام کو بیان فرمایا اور اللہ تعالی نے بھی ابھی تک کسی مورد کے بارے میں اس طرح کی تاکید نہیں فرمائی ! اب یہ تاکید کس کے بارے میں ہے ؟ کون سا واقعہ پیش آیا ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو بیان کرنے میں جو ان پر نازل ہوا ہے مشکل سمجھتے ہیں ؟
یہ تمام سوالات اس برے اجتماع میں جو میدان غدیر میں حاضر ہونے والی کثیر تعداد کو ! اور بھی حساس تر کرتے ہیں تا کہ سکوت کی مکمل حکمرانی ہو اور حاضرین ہمہ تن گوش رسولؐ اللہ کی جانب متوجہ رہیں اور انکے سخن کے ایک ایک لفظ پر توجہ دین ۔
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لوگوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ سب اُن کو جانتے بھی تھے پہچانتے بھی تھے ۔ شجاعت و استقامت میں ایثار و فداکاری کو راہ خدا اور اس کے رسول ؐ کے بارے میں جو اس شخص نے دکھائی تھی وہ کسی میں نظر نہیں آتی تھی ۔ اور نہ ہی کسی کے بارے میں ایسا سنا تھا ۔
وہ پہلا شخص تھا کے جس نے سخت ترین حالات میں ۔ دس سال کی عمر میں ، ہر ایک سے پہلے پیغمبرؐ پر ایمان کا اظہار کیا ، اپنے ایمان کو ان پر پیش کیا اور ان کے ساتھ سب سے پہلے نماز گذار بنا ۔
وہ بلند ترین شخص علی علیہ السلام ابو طالبؑ کے فرزند تھے ۔ اوائل بچپن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن لطف و کرم میں تربیت حاصل کی ۔
وہ ’’ لیلۃ المبیت ‘‘ میں اس رات جب پیغمبرؐ نے مخفی انداز میں گھر کو خیر باد کہا مدینہ کی جانب ہجرت کا آغاز کیا ، جب کہ اس وقت مشرکین اسی شب آپ ؐ کو آپ ؐ ہی کے بستر پر تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے ۔ پیغمبرؐ کی جگہ پر ان کے بستر پر سکون سے لیٹ گئے تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مشرکین کے شر سے سلامت رہیں اور ان کے غائب ہونے کا احساس نہ کریں ۔
ہان ! یہ احتمال تھا کہ مشرکوں کی ننگی تلواریں رات کی تاریکی میں علی ؑ کے جسم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ برس پڑیں اس پہلے کے ان کو علم ہو سکے کہ یہ علی ؑ ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !
جی ہاں وہ جوان کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک کھڑے ہوئے تھے ۔ اور پیغمبرؐ نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا تاکہ سب کہ سب ان کو پہچان لیں اور خوب جان لیں بعد میں تاریخ دوسروں کے ناموں کو ان کی جگہ پر ثبت نہ کرے ۔ فقط علی علیہ السلام تھے جز علی علیہ السلام کے کوئی اور فرد نہ تھا ۔ البتہ ان کو سب پہچانتے تھے کہ غزوہ بدر ، احد ، خندق ، خیبر اور بہت سی جنگوں میں کس طرح سے آبرو دین و پیغمبرؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کیا ہے ۔
اور ان سخت حالات میں بھی جب دشمن نے رسولؐ اللہ سے مبارزہ طلبی کیلئے صدا بلند کی تو پیغمبرؐ مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کو فرماتے کہ دشمن کا جواب دیں کسی میں بھی میدان میں جانے کی جرأت نہ ہوتی اور صرف تنہا علی علیہ السلام تھے کہ ہر بار اپنی جگہ سے اٹھتے اور عرض کرتے یا رسولؐ اللہ میں حاضر ہوں !
علی ؑ وہ تھے کہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے وحی کو پہچانتے تھے ۔
تمام قرآن کو اپنے وجود سے درک کیا ۔ ناسخ و منسوخ ، محکوم و متشابہ ، عام و خاص ، مطلق و مقید ۔۔۔۔ ان سب کو جانتے تھے ۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اس آخری حج کے موقع پر مسلمانوں کے اس عظیم اور انوکھے قسم کے اجتماع میں ایک خاص قسم کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمای
من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وال من واله و عاد من عاداه نصر من نصره و اخذل من اخذله‘‘ جس کا میں مولا ہوں یہ علیؑ اس کا مولا ہیں یا اللہ تو اس سے محبت کر جو اس علیؑ سے محبت کرے اور اس کع دشمن رکھ جو اس سے دشمنی کرے تو اس کی نصرت کر جو اس کی مدد کرے اور تو اس کو ذلیل و خوار کر جو اس کو چھوڑے اور خوار کرے .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلام انہی کلمات کے ساتھ ختم ہوا اور اللہ تعالی کا فرمان اس انداز کے ساتھ لوگوں تک پہنچا ۔ تمام حاجی ایک ایک کر کے حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو اس عظیم منصب پر مبارک باد عرض کی اور ساتھ یہ ان کی بیعت بھی کی ۔ یوں اس دن کا نام ’’ غدیر ‘‘ سے مشہور ہوا اور یہ چھوٹی سی جگہ غدیر تاریخ کے پر طلاطم بحر بے کراں کا حصہ بن گئی ۔ تاریخ اسلام میں یہ ایک زندہ و جاوید واقعہ ان زندہ موجوں کی مانند ہے جو ساحل تک پہنچتی رہیں گی ۔
غدیر امام رضا علیہ السلام کے فرمان میں :
حضرت امام رضا علیہ السلام سے روز غدیر کی فضیلت و شرافت میں یوں روایت نقل کی گئی ہے کہ : آپؑ نے فرمایا : جب قیامت بپا ہو گی تو دنیا کے ایام میں ۴ (چار) دن نئی نویلی آراستہ دلہنوں کی طرح ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل کریں گے ۔کسی نے دریافت کیا وہ چار دن کونسے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : عید فطر ، عید قربان ، روز جمعہ اور روز غدیر اس فرق کے ساتھ کہ روز غدیر ان تین دنوں میں زیادہ اہمیت والا اور درخشندہ ہوگا جیسے کہ ستاروں کے درمیان چاند ہوتا ہے : کیونکہ غدیر کے دن بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :
حضرت ابراہیم خلیل اللہ یوم غدیر میں ۱۸ ذی الحجہ ۔ آتش نمرود سے سالم رہے اور شکرانہ کے طور پر ۱۸ ذی الحجہ کا روزہ رکھا ۔
غدیر ، وہ دن ہے جس دن اللہ تعالی اپنے دین کو کامل کیا ، اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمان خدا سے حضرت علی علیہ السلام کو امیر المومنین کے عنوان سے سب کے سامنے تعارف کرایا ، دوسروں پر ان کی برتری کا اظہار کیا اور اپنا وصی و جانشین قرار دیا اور اس روز میں روزہ رکھا ۔
یوم غدیر ، شیطان کی ناامیدی اور اس کے ذلیل ہونے کا دن ہے ۔
یوم غدیر ، شیعوں اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے محبوں کے امال کی قبولی کا دن ہے ۔۔۔
یوم غدیر ، علم و دانش کی نشر و اشاعت ، نوید اور عید اکبر کا دن ہے ۔ اس دن دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ یہ وہ دن ہے کہ سیاہ لباس کو اتار دیا جائے ۔ فاخرہ و زیبا لباس پہنا جائے یہ ہم و غم کو دور کرنے ، اور خطا کاروں کو معاف کر دینے کا دن ہے ۔
یوم غدیر ، نیکیوں میں سبقت کرنے کا دن ہے ، محمد و آل محمد علیہم السلام پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنے کا دن ہے روز رضا اور خوشنودی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کے لیے عید کا دن ہے ۔ اہل ایمان کے لیے خوشی و آسائش ، فائدہ اٹھانے ، محبت اور دوستی کا اظہار کرنے ، رحمت اور پاکیزگی کے حاصل کرنے کا دن ہے ۔
یوم غدیر ، کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہنے اور عبادت کرنے کی بہترین فرصت اور روزہ دار معزز افراد کو افطاری دینے کا دن ہے ۔
اس دن جب بھی ہر مومن اپنے بھائی اور بہنوں سے ملاقات کرے تو آغاز میں یوں کہے
’’ الحمد الله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة علی بن ابی طالب و الائمة علیهم السلام ‘‘
یوم غدیر ، مسکرانے اور خوشیاں منانے کا دن ہے ، جو بھی اس دن مسکراتے ہوئے خوشی کے انداز میں اپنے بھائی و بہنوں سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر اپنی نگاہ رحمت ڈالے گا ۔
یوم غدیر روز آرئش و زینت ہے ، جو بھی یوم غدیر کی خاطر آرائش و زینت کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کا اور مغفرت کا حق دار بنے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ روز غدیر میں ، حضرت علی بن موسیٰ الرضاؑ کی روایت کے مطابق
حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے اپنے خراسان کے سفر میں ، شہر طوس میں یوم غدیر کو منایا ۔ اس وقت آپ کے محبوں اور آپ کے اعزاء و اقارب کی ایک تعداد آپ کے حضور موجود تھے ، امام علیہ السلام نے ان سب کو اپنا مہمان بنایا اور افطار کی دعوت دے رکھی تھی ۔ اور جو کوئی بھی اس نورانی محفل سے جانا چاہتا اسے روکتے تھے ۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو اس کی شخصیت کے مطابق تحفہ بھی عطا کرتے تھے اور محفل کو ایسا مرتب کر رکھا تھا ، کہ ہر ایک کی وضعیت اور حالت ایک دوسرے سے جدا تھی ۔ اور بہترین انداز سے لوگوں کو خوش آمدید کہا جا رہا تھا اور اس وقت حضرت امام رضاؑ نے روز غدیر کے فضائل بیان فرمائے ۔ من جملہ ان مطالب میں حضرت کی طرف سے یہ حدیث بھی بیان ہوئی ۔
میرے والد محترم انے اپنے اجداد سے یہ روایت بیان فرمائی : کسی ایک سال میں یوم غدیر روز جمعہ سے مصادف ہوا ، اس دن امام علی بن ابیطالب علیہ اسلام مبنر پر رونق افروز ہوئے جب آغاز روز سے پانچ گھنٹے گذر چکے تھے اس دن آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ، اس انداز سے بیان فرمائی کہ اس دن سے پہلے کسی سے ایسی نہ سنی گئی تھی اس خطاب کے بعض مطالب کچھ یوں ہیں :
خطبہ کامتن یہاں ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمد و ثناء
تمام حمد و سپاس گذاری اس اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے جو ، تعریف کرنے والوں کی تعریف کا محتاج نہیں ہے ، البتہ اپنی بارگاہ میں سپاس گذاری کو ان سے اپنی حقیقت لاہوتی ، ذاتی بے نیازی اور اپنے پروردگار ہونے کا اعتراف کرنے کے لیے راستہ قرار دیا ہے نیز اس حمد و ثناء کو مخلوق پر اپنی رحمت کو زیادہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔
اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر گواہی
شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ یک و تنہا ہے اور اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے ۔ یہ گواہی اخلاص کی تمام بلندیوں کے ساتھ دیتے ہوئے سچی زبان سے اظہار کرتا ہوں کہ وہ ایسا خالق ہے جس نے تمام موجودات کو وجود بخشا اور انہیں شکل و صورت عطا فرمائی ۔
تمام کے تمام نیک ترین نام اللہ تعالی کے لیے ہیں ۔ کوئی چیز بھی اس کی طرح کی نہیں ہے ۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے علم کی بلندی کی بنا پر ان کو تمام امتوں پر برگزیدہ کیا ہے اور انہیں بلند مقام و مرتبہ عطا کیا ۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار اپنی وحدانیت کے ساتھ رکھا ہے اور انہیں خاتم الانبیاء کی منزلت عطا فرمائی کہ یہ بزرگ عہدہ کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا : اللہ تعالی نے آیات قرآن میں یہ فرمان دیا کہ مومنین پیغمبر اکرم ؐ پر درود بھیجیں اور اس اعلی طریقہ سے ان کو مورد تکریم و احترام قرار دیا ہے ۔
(انسانوں کے ہادی ، پیغمبرؐ کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے ایک مخصوص گروہ کو منتخب کیا اور انہیں سب پر برتری بخشی ۔ اور ان کو ، اللہ تعالی کی جانب سچا دعوت کرنے والا بنایا ہر زمانے اور ہر صدی میں ان کو اللہ تعالی کی طرف راہنمائی اور رشد و ہدایت کرنے والا بنایا ۔ اللہ تعالی نے ان ہادیوں کو ہر ایک سے پہلے خلق فرمایا ، ان کو ذات احدیت کی حمد و ثناء کرنے والا بنایا ، انہیں پروردگار کی تعریف و تمجید اور شکر ادا کرنے کا طریقہ الہام کیا اور جو بھی اللہ تعالی کی فرمانروائی اور پروردگاری کا معترف ہے انہیں اس کے لیے حجت قرار دیا ۔
اللہ تعالی نے ہادیان حق کو دیگر موجودات کی خلقت پر شاہد قرار دیا ۔
بعض امور ہستی کی سر پرستی ۔ اپنی مشیت کی بنیاد پر ۔ ان کے سپرد کی ، ان کو اپنا ترجمان بنایا ان کو اپنی مشیت قرار دیا ۔
یہ ہادیان حق وہ ہیں کہ جنہوں نے درگاہ الہی میں مقام بندگی اور عبادت میں کبھی بھی اللہ تعالی کے قول سے تجاوز نہیں کرتے ، بس وہ حکم الہی کی اساس پر ہی عمل کرتے ہیں ۔ وہ کسی کی بھی شفاعت کی ذمہ داری کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک خداوندان کے وسیلے اور شفاعت پر اپنی رضایت نہ دے دے ۔ (البتہ امور بندگان میں ان کی شفاعت اور ولایت ہر گز اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے مقابل خود کوئی دعویٰ کرتے ہوں ، بلکہ ان تمام فضائل کے باوجود ) وہ اللہ تعالی کے حضور خاضع اور فروتن ہیں اور اللہ تعالی کے غضب سے ڈرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کے قوانین کی اساس پر حکم کرتے ہیں اور اللہ کی سنت پر چلتے ہیں ۔ اس کے حدود اور قوانین پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کے واجبات کو بجا لاتے ہیں ۔
مومنین کیلئے جمعہ اور غدیر دو عظیم ترین عیدیں ۔
( اس توجہ کیساتھ کہ عید غدیر روز جمعہ کو واقع ہوئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا : )
اللہ تعالی نے آپ مومنین کیلئے ، دو بڑی عیدوں کو اس طرح کے دن میں جمع کیا کہ ان دو میں سے کسی کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا مگر ایک دوسرے کے وسیلے سے ۔
اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جمعہ اور غدیر کی زیبا ترین تخلیق کو تمہارے لئے کامل و اکمل فرمائے ، تمہیں رشد و ترقی کے میدان سے آگاہ کرے اور نور ہدایت کے متلاشیوں کو راہ گذر پر کھڑا کرے ۔
اللہ تعالی نے روز جمعہ اہل ایمان کے لیے ایک اجتماع کا وسیلہ قرار دیا ہے تا کہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہو کر اپنی ایک ہفتے کی خطائیں اپنے دامن روح اور زندگی سے دور کر سکیں اور نا پسند چیزیں جو گذشتہ دونوں میں انجام پائیں انہیں خالصانہ توبہ سے دھو ڈالیں ۔
اللہ تعالی نے روز جمعہ کو اہل ایمان کے لئے مایہ تذکر اور ہوشیار رہنے کا دن قرار دیا اور اس دن کو اہل تقوی کیلئے ڈرنے کا راستہ قرار دیا اور اعمال کا ثواب اس دن دو برابر کر دیا ۔
توحید اور دین کے قبول ہونے کی شرط
( امام علیہ السلام نے اپنے اس جامع اور کامل بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : )
اللہ تعالی اس وقت تک کسی کی توحید کو قبول نہیں کرے گا جب تک توحید اور وحدانیت خداوند کے ساتھ ساتھ اقرار نبوت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ ہو ۔
اسی طرح وہ کسی کے دین کو قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ دین کی پابندی اور اظہار دین ان کی ولایت کے ہمراہ ہو کہ اللہ تعالی نے جن کی ولایت کے اقرار کرنے کا لوگوں کو حکم دیا ہے ۔
صاحب ولایت کون ہے ؟
امام علیہ السلام اس بیان کرنے کے بعد کہ قبولی توحید کی شرط ، نبی خاتم کی نبوت کا اقرار اور دین کے قبول ہونے کی شرط اقرار ولایت ہے اس موضوع کی وضاحت کرتے ہیں کہ ’’ اہل ولایت ‘‘ کون ہیں اور اللہ تعالی نے ’’ ولایت ‘‘ کیلئے کون سے فرد یا افراد کو چنا ہے کہ دین داروں پر جن کا اقرار واجب ہے ۔
اللہ تعالی نے روز غدیر اپنے رسول پر آیت نازل فرمائی کہ اس میں اپنی چاہت اور ارادے پر سے پردہ اٹھا دیا اور اپنے بر گزیدہ افراد کا تعارف کرایا اور اپنے رسولؐ سے چاہا کہ اس پیام کو لوگوں تک پہنچا دیں اور اس فرمان کے پہنچانے کیلئے یہ ضمانت دی کہ ہر گز بد خواہوں اور منافقوں سے پریشان نہ ہوں ، کیونکہ اللہ تعالی ان کو بد خواہوں اور منافقوں کے گھناؤنے منصوبوں اور آسیب سے محفوظ رکھے گا ۔
امام علیہ اسلام کا اس بیان سے اشارہ سورہ مائدہ کی آیت ۶۷ کی طرف ہے کہ جو آیت تبلیغ کے نام سے معروف و مشہور ہے ۔
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ سورہ مائدہ آیت ۶۷
اس آیت کی بنا پر امام علیہ السلام اس آیت کی توضیح اور تفسیر میں فرماتے ہیں خداوند نے جو فرمان دیا ہے کہ اس کا لوگوں میں ابلاغ کیا جائے اس آیت کا موضوع ’’ ولایت ‘‘ اور ’’ صاحب ولایت ‘‘ تھا نہ کہ وہ مسائل جو کھانے پینے کی ، حلال و حرام کے بارے میں تھے یا احکام انفرادی تھے اور اسی دلیل کے مطابق جو مسئلہ آیت کریمہ کے مورد نظر ہے وہ مسائل معنوی میں اہم تر تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فکر مند تھے کہ شاید موقع کی تلاش میں رہنے والے اور ضعیف الایمان افراد اس اہم ترین مسئلہ کو قبول نہ کریں اور زبان اعتراض دراز کریں گے تو اس طرح دو گروہ وجود میں آجائیں گے یا چپکے چپکے شیطانی منصوبے بنائیں گے ۔ مگر اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر ؐ کو تسلی دی کہ وہ شیطانی کاموں اور گھناؤنے منصوبوں کو بے اثر کرے گا ۔
امام علیہ اسلام نے اسی مطلب کو واضح تر اور صاف تر بتانے کی خاطر اپنے سخن کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالی نے اس آیت کی روشنی میں اہل شک اور اہل ارتداد کے پوشیدہ اسرار اور چھپی ہوئی نیتوں کی خبر دی ہے ۔ یہ اس انداز سے دی کہ مومن اور منافق سمجھ گئے کہ اللہ تعالی کا کیا ارادہ ہے ، اہل ایمان ، حقیقت ایمان میں پائدار اور اہل نفاق و تردید اپنی جاہلانہ روش پر اور مضبوط تر ہو گئے اور غیض و غضب میں آکر اپنے دانت پیسنے لگے ۔۔۔ جس وقت ’’ صاحب ولایت ‘‘ کی لوگوں میں معرفی ہو گئی تو بہت سے لوگوں نے اس ولایت کو زبان سے قبول کر لیا لیکن حقیقت کے ساتھ اس پر ایمان نہیں لائے اور دل میں اس بارے میں ناراحت تھے اور راضی نہ تھے ۔ البتہ ایک گروہ نے ’’ ولایت کو دل و جان سے صادقنہ انداز سے قبول بھی کیا اور زبان سے اظہار بھی کیا ۔
ولایت ، اکمال دین کا خزانہ
اس کے بعد امام علیہ اسلام نے ایک اور آیت جو کہ ’’ سورہ مائدہ آیت ۳ ‘‘ ہے کی طرف اشارہ فرمایا اور شان نزول بھی بیان کیا کہ ارشاد قدرت ہے ۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا سورہ مائدہ آیۃ ۳ ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیئے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو بعنوان دین تمہارے لئے پسند کیا ہے ‘‘ ۔
اگر چہ اس آیت کے پہلے اور بعد والے جملات حکم شکار و صید اور کھانے والی حلال و حرام اشیاء کے بارے میں ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہ بھی نظریہ دیا ہے کہ ان ہی احکام کو بیان کرنا دین کے کامل ہونے کا باعث بنا ہے ۔ لیکن امام علیہ اسلام نے روز غدیر مسئلہ ’’ ولایت ‘‘ اور ’’ صاحب ولایت ‘‘ کے تعارف کو تکمیل دین کا سبب سمجھتے ہوئے فرمایا ہے :
اللہ تعالی نے روز غدیر اپنے برگزیدہ بدنے کا تعارف کروا کر اور اسے ولی متعین فرما کر اپنے دین کو کامل و اکمل فرمایا ۔ اور اپنے رسولؐ کی مقدس آنکھوں کو خوشی و مسرت سے روشن فرمایا ۔ اور اسی انداز سے اس حکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لیکر بعد والی نسلوں کے مومنین کے لیے مبارک قرار دیا غدیر اور تعیین ولی کا مسئلہ ایسی چیز ہے کہ اصحاب میں سے کچھ اس کے شاہد اور خود اس میدان غدیر میں حاضر تھے ۔ اور بعض افراد نے ان سے یہ واقعہ سنا جو کہ اس روز میدان غدیر میں حاضر تھے ۔ یہ ایسا بلند و بالا اللہ تعالی کا نیک کلمہ ہے جو اہل صبر کے حق میں تمام ہوا اللہ تعالی نے اس سے فرعون ، ھامان ، قارون اور ان کے شیطانی لشکروں کی ساری محنت کو تباہ و برباد کر دیا ۔
اسی مقدار جو حقائق میں نے بیان کیے اور تم سب نے سنے ہیں یہ کافی و وافی ہیں ۔
تفسیر غدیر
امام رضا علیہ اسلام نے جو امام علی بن ابیطالب علیہ اسلام سے روایت نقل فرمائی ہے اس کو جاری رکھتے ہوئے اس مہم خطبے میں روز غدیر کی تفسیر اور حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کے بارے میں خوب غور فکر کریں اور اس کے ہر پہلو کے بارے میں سوچ و بچار سے کام لیں ! اللہ تعالی تمہیں اپنے لطف و کرم اور رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔
وہ راستہ کہ اللہ تعالی نے تمہیں دکھایا ہے اور تمہارے لیے سیدھا سیدھا بنایا ہے اس پر چلیں اور قدم کو آگے بڑھائیں ۔ ٹیڑے راستوں کی طرف میلان اور نہ پہچانے راستوں پر چلنے سر پرہیز کریں ۔ کیونکہ دوسرے چھوٹے موٹے اور مبہم راستے اصلی اور اللہ کے روشن راستوں سے دور ہونے کا سبب بنتے ہیں ، ام اسلامی ایسے راستوں پر چلنے سے بکھر جانے اور تفرقہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتے ہے !
یہ دن ۔ روز غدیر ۔ بہت بڑے مقام کا حامل ہے ! کیونکہ اس دن فرج و گشائش واقع ہوئی ، مشکلات و پریشانیاں دور ہوئیں اور ادلہ اور حجتیں سب پر آشکار ہوئیں ۔
غدیر ، ولایت سے پردے اٹھانے اور اسے آشکار کرنے کا دن ہے ۔
غدیر ، دین کے اکمل و کامل ہونے کا دن اور قول و قرار کے دریافت کرنے کا دن ہے ۔
غدیر ، راست قول و قرار کو فضول قرار دادوں اور بے بنیاد گفتگو اور آراء سے جدا کرنے کا دن ہے ۔
غدیر ، ’’ یوم الفصل ‘‘ کا ایک ایسا نشان ہے جو حق والوں کو اور باطل والوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا وعدہ دیا ہے
غدیر ، ارشاد و تبلیغ کا دن ہے اور اللہ کے بندوں کی آزمائش کا دن ہے ۔
پس اے اللہ کے بندوں ! اللہ تعالی کے ارادے ، مشیت اور ہدایت کو اس روز مورد توجہ قرار دو اور اس کی رعایت اور حفاظت پر کوشاں رہو ۔ تقوی الہی کی عادت بناؤ ، اللہ تعالی کے کلام کو سنو اور اس کی اطاعت سے غفلت نہ کرو ۔ اس مقدس راستے میں ہر طرح کے مکر و فریب سے بچو ۔
اللہ تعالی کی توحید اور وحدانیت کا اعتقد رکھتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرو ۔ اور اس کی اطاعت سے ہر گز غفلت نہ کرو کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے : نا درست اور مہم راہوں پر نہ چلنا کیونکہ گمراہ ہوجاؤ گے ۔
امام علیہ السلام نے ان کلی مفاہیم کو بیان کرنے کے بعد ایک مقدار میں مصادیق ، مثالوں اور واقعات اور کا ذکر کیا جو ہر زمانے میں ہوتے ہیں کہ جن سے انسان راہ دین اور دینی حجتوں سے دور ہوجاتے ہیں ۔ وہ قومی راہنماؤں قببیلوں کے بزرگوں اور حزب و جماعت کے رہبروں کی جو عمر کے لحاظ سے ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے آپؑ نے فرمایا :
اللہ تعالی نے قرآن میں ایسے گروہوں کی مذمت کی ہے جو کہ نا مناسب راہوں پر چلے ہیں اور جس وقت ان سے کہا جاتا کہ تم کیوں گمراہ ہوئے ہو تو وہ کہتے :
’’ ہم نے اپنے بزرگوں اور رہبروں کی اطاعت کی ہے ، انھوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے ، پرودگار ! ان کو دو برابر عذاب کا مزہ چکھا دے اور ان کے نصیب میں بہت بڑی لعنت فرما ۔ ‘‘
حضرت علی علیہ السلام خود اپنی زبانی
ایمان والو ! یہ جان لو کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ سورہ صف آیۃ ۳
بے شک اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے جو کہ اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر نبرد آزما ہوتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے دریافت کیا تم جانتے ہو اللہ کا راستہ کون سا ہے اور وہ کون ہے ؟
میں اللہ کا راستہ ہوں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اسے راستے پر چلیں ۔ پس جو بھی اللہ تعالی کے فرمان کے آگے سرخم نہیں کرے گا اور اس راستے سے انحراف کرے گا تو اس کا ٹھکانا آتش جہنم ہے ۔
میں وہ گذر گاہ ہوں جس کی تعریف اللہ تعالی نے فرمائی ہے تا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد میری پیروی کریں ۔
میں جنت و دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں !
میں نیک اور بد افراد پر اللہ کی حجت ہوں !
اس سے پہلے کہ موت کا فرشتہ آجائے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ تا کہ فرصت کے لمحات ہاتھ سے نکلنے نہ پائیں ۔ اہل عمل بن جاؤ اور دینی ذمہ داریاں پابندی کے ساتھ نبھاؤ !
افراط و تفریط کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی پریشانی
حضرت علی علیہ السلام نے گذشتہ عبارتوں میں مسئلہ غدیر اور اہل بیت کی ۔ ’’ ولایت ‘‘ کے موضوع کو رسول اللہ کے بعد اپنے مقام و مرتبہ کو جن بلند و بالا اور حیران کن تعبیرات سے بیان فرمایا ان سے کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے تھے ؟ کیا عظمت غدیر اور شرافت اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام کی معنوی و عرفانی منزلت اسی معنی میں ہے کہ لوگ اللہ تعالی کو سجدہ کرنے ۔ اور تکریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بجائے فقط آل محمد علیہم السلام کی محبت پر اکتفا کریں ؟ نہیں نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے ۔
بلکہ حضرت علی علیہ السلام تو اس بارے میں فکر مند تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے محب ، اہل بیت علیہم السلام کی محبت کے بہانے ، بارگاہ خداوند میں بندگی کے وظائف کو انجام دینے میں کوتاہی کریں ۔ اور ان کے دشمن کسی نہ کسی بہانے سے اہل بیت علیہم السلام کے بلند و بالا مقام منزلت سے بالکل انکار کر دیں ! اور شرک کرنے والی نسلوں کو توحید کے گن گانے والی نسل پر بر تری و فوقیت دے دیں ۔
جب حضرت علی علیہ السلام یہ فرماتے کہ ’’ میں راہ خدا ہوں ‘‘ تو انہیں یہ پریشانی ہوتی کہ کہیں ضعیف الایمان لوگ ’’ راہ ‘‘ کو ’’ مقصد ‘‘ پر ترجیح نہ دیں اور علی ؑ کے نام اور علیؑ کی یاد کو اللہ تعالی کے نام اور اللہ کی یاد پر ترجیح نہ دیں اور علیؑ کے نام کو اس ذات وحدانیت سے برتر اور کار آمد تر شمار نہ کریں ! اسی دلیل کی بنا پر قبل اس سے کہ یہ یہ جملہ اختتام پذیر ہو فوراً صراحت سے فرماتے ہیں :
’’ انا صراط الله الذی من لم یسلکه بطاعة الله فیه ، هوی به الی النار ۔ ‘‘
یعنی صحیح ہے کہ میں راہ خدا ہوں مگر جو بھی اس راہ میں قدم رکھے گا اور حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے چلے گا اور خود کو محب علیؑ اور شیعہ علیؑ کہلائے گا تو اسے چاہیے ہر قدم اللہ کی اطاعت اپنے پروردگار کی یاد میں اور اس کے نام اٹھائے ۔ اگر اس کے علاوہ ہوگا تو گمراہی اور ضلالت اس کے دامن گیر ہوگی ۔
جب امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا :’’ انا قسیم الجنة و النار ، انا حجة الله عزوجل علی الفجار و الابرار ۔ ‘‘
’’ میں ہی جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا اور اچھے اور برے افراد پر اللہ عزوجل کی حجت ہوں ‘‘
حضرت علی علیہ السلام اس کے بارے میں فکر مند تھے کہ کہیں ظاہری فکر کرنے والے اور الٹی سوچ رکھنے والے افراد اس کلام سے غلط بد فہمی کا شکار نہ ہوجائیں اور اس بھنور میں غرق نہ ہوجائیں جس میں بہت سے عیسائی غرق ہو گئے ہیں
جب انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات و کرامات دیکھے تو انہیں اللہ کا بیٹا بنا ڈالا ۔ اور اس بات کو بھول گئے تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ صرف خدا کے بندوں میں سے ایک بندے تھے وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا راستہ دکھانے کے لیے آئے تھے اور اپنی نبوت و حقانیت کو ثابت کرنے کی خاطر دلیل و معجزے لیکر آئے تھے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا بیماروں کو شفا بخشی اور اندھے افراد کو بینا کیا ، ان کاموں کے باوجود حضرت عیسی علیہ السلام نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا کہ خدا کے بجائے میری پرستش کریں حضرت علی علیہ السلام بھی اپنے اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل بیان کرنے سے ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ اپنے نام کو اللہ تعالی کے نام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی منزلت پر شمار کریں ۔ بلکہ اس کے بر عکس یہ چاہتے ہیں کہ اپنے وجود کو اللہ تعالی کیلئے اس طریقہ سے پیش کریں کہ یاد خدا اور نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معاشرہ بشریت میں زند و پایندہ رہے ۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام شب ہجرت رسول اللہ کے خالی بستر پر دشمنوں کی تلواروں کے سامنے ڈھال بن کر لیٹ گئے تا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلامت رہیں اور توحید بر قرار رہے ۔
حضرت علی علیہ السلام غلو کرنے والوں اور افراطیوں کے بارے میں فکر مند تھے ، اسی طرح کینہ رکھنے والوں اور برائیوں کو ہوا دینے والوں سے بھی غافل نہ تھے ۔ اور وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ بعض لوگ توحید اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حفاظت کے بہانے بنی امیہ اور بنی عباس کے راستوں کو اس راستے پر ترجیح دیں گے جس راستے کو حضرت علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اپنا یا تھا !
نیز حضرت علی علیہ السلام یہ بھی جانتے تھے کہ بعض لوگ تارخ اسلام میں یہ کوشش کریں گے کہ اس پر برکت جگہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ’’ حجۃ الوداع ‘‘ کے بعد رسالت کے بحر بے کراں کے ساتھ پیوند لگا یا تھا ، کا بلکل انکار کر دیں اور بات کو یہاں تک پہنچا دیں کہ اگر مرکز وحی میں جہاں پر پیغمبر نے ولایت علی علیہ السلام کو اپنی ولایت کی مانند قرار دیا ۔ اگر حاجیوں کی کثیر تعداد سے پوچھیں کہ غدیر کیا ہے تو اکثر کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے در حالانکہ وہ بازار میں یوسف کو سب کے سب پہچانتے ہیں !
حضرت علی علیہ السلام کے محبوں کیلئے غدیر کا پیغام
امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق یہ سب کچھ اس بات کا بات کا باعث بنا کہ مولا علی علیہ السلام غدیر کی پہچان اور اپنا تعارف کروانے کے بعد غدیر کا پیغام اپنے محبوں کیلئے واضح تر اور صاف اور صاف تر بیان کریں اور اپنے محبوں سے تقاضا کریں کہ ہر ’’ حضرت علی ؑ اللہ کا راستہ ہیں ‘‘ مگر راستے میں کھڑے نہ ہوجائیں کیونکہ راستہ چلنے کیلئے ہوتا ہے ، راستہ اس لئے ہے کہ اس سے بزرگ ترین مقصد ہستی تک پہنچیں ، اس راستے سے اللہ تعالی کی جانب روانہ ہوں ، تفسیر قرآن مجید و سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور معرفت دین اور زندگی گذارنے کا طریقہ حضرت علی ؑ سے سیکھیں تا کہ اللہ تعالی کے حضور شرک و کفر میں گرفتار نہ ہوں ۔
پس حضرت علی علیہ السلام خطبہ غدیر کے آخر میں پیغام غدیر کی یوں تشریح کرتے ہیں :
’’ سارعوا الیٰ الطاعات ، قبل فوت الاوقات ‘‘
اس سے پہلے کے فرصت کہ اوقات آپ کے ہاتھ سے چلے جائیں ، اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی میں کوتاہی نہ کریں ! موت ایسی چیز ہے جو تمام لذتوں کو درہم برہم اور نابود کر دیتی ہے اور اس کا رخ ہمیشہ تمہاری جانب ہے اور تمہارے لئے اس سے کوئی بھی راہ فرار نہیں ہے
اب آپ کا جمعہ کے دن غدیر کا اجتماع ختم ہو چکا ہے اب اس اجتماع کے بعد ، اس فکر و اندیشہ کے ساتھ اپنے گھار کی جانب پلٹیں کہ اپنے اہل خانہ کیلئے آسائش اور خوشحالی کا تحفہ لیکر جائیں ۔
الہی اور دینی الفت و محبت کی روشنی میں ، اپنے اجتماعی حلقوں کے بندھن کو اور مضبوط تر کریں ۔
دوسروں کی خدمت ، نیکی کے مقابلے میں خدمت کریں اور نیکی انجام دیں تا کہ اللہ تعالی تمہارے محبت و الفت اور جانثاری میں اضافہ فرمائے ۔
جو نعمتیں اللہ تعالی نے تمہیں دی ہیں وہ ایک دوسرے کو بطور ھدیہ و سوغات دیں ، کہ اللہ تعالی عید غدیر جیسی عیدوں میں تمہارے نیک کاموں کا اجر و ثواب چند برابر کردے گا :
ان عیدوں میں نیک کاموں کا انجام ، زندگی اور مال میں اضافے کا سبب ہے ۔
اس دن ایک دوسرے سے اظہار محبت کا نتیجہ ، رحمت و الفت خدا کا مزید حصول ہے ۔
جتنا اللہ نے آپ کو سرمایہ اور امکانات دیئے ہیں ان میں سے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں بھی تقسیم کرو ۔
خندہ پیشانی اور محبت سے مسکراتے ہوئے اس دن ایک دوسرے سے ملاقات کریں ۔
اللہ تعالی نے تمہیں جس انعام و اکرام سے نوازا ہے اس کا اس کے حضور شکریہ اور اس کی ثناء کریں ۔
جو کوئی تم سے امید وار ہو ، اس کی ضرورت کو پورا کرو اور اس کی زیادہ حمایت کرو ۔
کوشش کریں غریبوں اور فقیروں کو وہی غذا کھلائیں جو تم خود کھاتے ہو ۔
جتنی بھی مقدار میں اس دن اپنا سرمایہ اور امکانات اللہ تعالی کے راستے میں جو اس نے بتائے ہیں خرچ کرو گے تو اللہ تعالی تمہیں اس سے سو برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا ۔
اس دن روزہ رکھنے کا اجر عظیم تر ہے ۔
ذوق و شوق کے ساتھ آج دوسروں سے نیکی کرنے کا اجر و ثواب اس شخص جیسا ہے کہ جس نے دن میں روزہ رکھا ہو اور رات کو عبادت میں بسر کیا ہو ۔
جو کوئی بھی اس رات کسی مومن کو افطاری کی دعوت دے وہ ایسے ہے کہ جیسے اس نے ایک لاکھ پیغمبروں اور صادق مومنوں اور شہیدوں کو دعوت دی ہو ۔ اور میں اللہ تعالی کی طرف سے اس بات کا ضامن ہوں کہ وہ ہمیشہ کفر و فقر سے محفوظ رہے گا ۔ اگر وہ اس دن یا دوسرے سال کے آنے تک اس دوران فوت ہوجائے اور اس دوران اس نے گناہ کبیرہ نہ کیا ہو تو اس کا اجر اللہ تعالی کے پاس ہے ۔
جو بھی اپنے بھائی کو مالی قرضہ دے اور ان کی مدد کرے ، میں اللہ تعالی کی جانب سے ضامن ہوں کہ اس کو ادا کروں گا
اس دن سلام کرنے کے ساتھ ایک دوسرے کی سلامتی کی آرزو کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں ۔
اس دن اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کریں ۔
حاضر حضرات اس پیغام کو غائب حجرات تک پہنچائیں ۔
سرمایہ دار اور مخیر حضرات اس دن فقراء سے اور شہ زور افراد کمزور افراد سے ملاقات کریں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اس راہ و روش کا حکم دیا ہے ۔
منابع و مآخذ :
1.احقاق الحق ، نور اللہ شوشتری آیت اللہ مرعشی نجفی ، کے تعلیقات کے ہمراہ قم ، خیام ۱۴۰۶ ھ ۔ ق
2.الدر المنثور ۔تالیف سیوطی ، عبد الرحمن ، بیروت ، دار المعرفہ ، بی تاہ
3.الغدیر الامینی ، عبد الحسین دار الکتب عربی ، بیروت ، ۱۳۸۷ ھ ۔ ق
4.شواھد التنزیل ، عبد الرحمن ابن احمد المعروف بالحاکم الحسکانی ، بیروت ، اعلمی ، ۱۳۹۳ ھ ۔ ق
5. فتح الغدیر ، الشوکانی ، محمد بن علی ، بیروت ، ۱۴۱۷ ھ ۔ ق
6.مسند الامام الرضا علیہ السلام عطاردی ، عزیز اللہ ، تہران ، مکتبہ الصدوق ، ۱۳۹۲ ھ ۔ ق