راہ پیغمبر(ص) کو جاری رکھنے والے
اہل بیت(ع) سے ہماری مراد پیغمبر(ص) کی عترت میں بارہ امام علیہم السلام ہیں۔ ہم نے گزشتہ کتابوں میں اس سلسلے میں جو گفتگو کی ہے۔ شیعوں اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:
میرے بعد ائمہ بارہ افراد ہوں گے اور یہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔
آپ(ص) نے مزید فرمایا۔ یہ امر ( امامت) قریش ہی میں رہے گا خواہ قریش میں صرف دو ہی آدمی کیوں نہ بچے ہوں۔
اور چونکہ سبھی جانتے ہیںکہ خدا نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و خاندان عمران کو دنیا کے تمام لوگوں میان منتخب کیا ہے۔ پس پیغمبر اکرم(ص) نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے ان تماملوگوںپر بنی ہاشم کو منتخب کیا ہے اور یہ لوگ تمام برگزیدہ افراد پر فضیلت رکھتے ہیں۔
صحیح مسلم کے باب فضائل میں (دیگر لوگوں پر فضیلت پیغمبر اکرم(ص)) کے باب میں آن حضرت(ص) سے منقول ہے کہ
خدا نے کنانہ کو فرزندان اسماعیل(ع) سے منتخب کیا اور قریش کو کنانہ سے۔ اور بنی ہاشم کو قریش سے اور مجھے بنی ہاشم سے۔
اس حدیث سے پتہ چلتاس ہے کہ خدا نے بنی ہاشم کو تمام مخلوق پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اور بنی ہاشم پر رسول اکرم(ص) کو فوقیت و فضیلت دی ہے۔ لہذا بنی ہاشم کا رتبہ آپ کے بعد ہے۔ اور رسول اکرم(ص) نے تمام بنی ہاشم میں علی(ع) اور ان کی اولاد کو منتخب کیا اور خدا کے حکم سے انہیں اپنا جانشین بنایا ہے۔ جس طرح سے خود آپ(ص) پر درود و سلام بھیجنا واجب تھا، اسی طرح آپ نے علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر درود و سلام بھیجنا واجب قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے اکثر مفسرین نے علی(ع) و آل علی(ع) کو آیہ تطہیر کا مصداق بتایا ہے۔ صرف آیہ تطہیر ہی نہیں بلکہ آیت مودت، آیت ولایت اور آیت اصطفاء کا مصداق بھی اہل بیت(ع) ہی ہیں۔کتاب کے وارث، اہل ذکر، راسخون فی العلم اور سورہ ہل اتی سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں۔
رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں جن کی صحت پر تمام علماء فریقین کو اتفاق ہے، بہت زیادہ ہیں ان حدیثوں میں رسول اکرم(ص) نے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلتوں کو بیان کیا ہے اور انہیں ہدایت دینے والے رہبر بتایا ہے۔ چونکہ یہ حدیثیں بہت زیادہ ہیں لہذا ہم صرف دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ مسلم نے اپنی صحیح میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :
اے لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں، ممکن ہے جلد ہی خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ آجائے اور میں اس کی
دعوت پر لبیک کہہ دوں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں تمہارے درمیان دور گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں
ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ کتاب خدا کو مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے
اہل بیت(ع) ہیں تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے
اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو یاد رکھنا۔ ( صحیح مسلم ج۴،
ص۱۸۷۳، ح۲۴۰۸)
۲۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :
” اے علی(ع) تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہےجو ہارون(ع) کو موسی(ع) سے تھی۔
مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔“
ہم اختصار کی بنا پر ان ہی دو حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان حدیثوں سے واضح اور ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) عترت پیغمبر(ص) کے بزرگ تھے اور آپ ہی نے رسول خدا کی حفاظت کی اور ان کے راستہ کو جاری رکھا۔ رسول اکرم(ص) نے اسی بات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔
کیا یہی حدیث کافی نہیں ہے اس بات پر کہ امت علی(ع) کے بغیر ” شہر پیغمبر“ میں داخل ںہیں ہوسکتی۔ ان دو بزرگوں پر خدا کا درود و سلام ہو خدا نے گھر میں صرف دروازہ سے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت علی(ع) نے صرف رسول خدا(ص) سے علم حاصل کیا ہے آپ بچپن ہی سے رسول خدا(ص) کی تربیت میں رہے اور ہمیشہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے گزشتہ اور آیندہ کا علم آپ(ع) کو عطا کیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:
” جبرئیل نے مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی جو میں نے علی ابن ابی طالب(ع) کو نہ سکھائی ہو“۔
اس بارے میں خود حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:
” اگر مسند قضاوت بچھا دی جائے تو میں اہل توریت کے لیے توریت سے اور اہل انجیل کے لیے
ان کی انجیل سے اور اہل قرآن کے لیے قرآن سے فیصلہ کروں گا۔“
آپ(ع) مزید فرماتے ہیں : ” سلونی قبل ان تفقدونی“
” مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں۔“
تاریخ اسلام میں تمام مسلمان اور اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ دین و دنیا کے سب سے بڑے عالم علی(ع) ہیں۔ آپ(ع) دنیا کے پارساترین اور زاہد ترین فرد تھے آپ(ع) نے ہر طرح کی مصیبت اور سختیوں میں صبر کے اعلی ترین مدارج کا مظاہرہ کیا اور جنگوں میںآپ(ع) کی شجاعت کی برابری کون کرسکتا ہے؟
اسی طرح خطا کاروں کو معاف کرنے اور عفو و بخشش کا مظاہر کرنے میں بھی آپ(ع) کا ثانی نہیں ہے۔
ان مطالب کو کامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت(ع) کے درمیان رشتہ اور ربط کے بارے میں آپ کے ارشادات پر توجہ کی جائے۔
اسرار پیغمبران (اہل بیت(ع)) کے حوالہ کیا گیا ہے جو بھی ان کی پناہ میں آئے اس نے
راہ حق اختیار کی ہے، ( وہ علم رسول(ص) کے مخزن ہیں اور ان کی شریعت کے احکام کو
بیان کرتے ہیں۔ قرآن و سنت ان کے یہاں محفوظ ہیں، وہ پھیلے ہوئے پہاڑ کی طرح
دین کے پاسبان ہیں۔ انہیں کے ذریعہ اس کی پشت مضبوط ہے اور اس کے پہلو کی کپکپی
دور ہوئی ہے۔ ( نہیج البلاغہ⁄خطبہ۲)
خدا کی قسم ہمیں پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کو پورا کرنے، امر و نہی کو بیان
کرنے کا پورا علم ہے اور ہم اہل بیت(ع) پر ہی علم و حکمت الہی کے دروازے
کھلے ہیں۔ ( نہیج البلاغہ⁄خبطہ۱۲۰)
کہاں ہیں وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ دعوی کرتے
ہیں کہ ہو ” راسخون فی العلم“ ہیں نہ کہ ہم۔ خدا نے اس کے عوض ہمیں بلندی دی
اور انہیں پستی میں ڈال دیا۔ ہمیں عطا کیا اور انہیں محروم کیا۔ ہمیں اپنی عنایت کے دائرہ
میں رکھا اور انہیں باہر کردیا۔ ہم ہی سے طلب ہدایت اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے
کی خواہش کی جاسکتی ہے۔ بلا شبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ
بنی ہاشم کے کشت زار سے ابھرے ہیں۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ بنی ہاشم
کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا۔ ( نہج البلاغہ⁄خطبہ۱۴۴)
بلا شبہ، آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں کے مانند ہے۔ اس لیے اگر ایک ستارہ
غروب ہوتا ہے تو دوسرا ظاہر ہوجاتا ہے گویا تمہارے حق میں خدا نے خیرو وبرکت کو کمال
کی حد تک پہنچایا ہے اور جو کچھ تم آزرو کرتے ہو( خدا نے ) تمہیں بخشا ہے۔ ( نہج البلاغہ⁄خبطہ۱۰۰)
اس امت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں پر ان کے
احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور
یقین کے ستون ہیں۔آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے
رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں
انہی کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انہی کے لیے نبی(ص) کی وراثت ہے۔
اب حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا۔ ( نہج البلاغہ⁄خطبہ۲)
اور ( میں اپنے نبی(ص) کے طریقے اور) شاہراہ حق پر گامزن ہوں اور اسے باطل کے
راستوں سے جدا کرتا رہتا ہوں۔ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع) کو دیکھو! ان کی سیرت
پر چلوں ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت فلاح سے باہر نہیں و فلاح سے
باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں
تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ
ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ( انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہوجاؤ گے۔ (نہج البلاغہ⁄خبطہ۹۷)
وہ علم کے لیے باعث حیات اورجہالت کے لیے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علم
کا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کو پتہ دیتی ہے۔
وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ اسلام کے
ستون اور بچاؤ کا ٹھکانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی
جگہ سے ہٹ گیا او اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔ انہوں نے دین کو سمجھ کر اور حاصل
کر کے اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سنا اور لوگوں سے بیان کردیا ہو۔ یوں تو علم
کے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی نگہبانی کرنے والے کم ہیں۔(نہج البلاغہ⁄خطبہ۲۳۹)
ہاں! یہ نہج البلاغہ کے کچھ گوشے ہیں جنہیں میں نے امام علی(ع) کی زبان سے نقل کیا
ہے یہ کلام پیغمبر(ص) اور آل پیغمبر(ص) کے درمیان حقیقی رابطہ کی شکل کو بیان کرتا
ہے نیز اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صرف اہل بیت(ع) ہی مختلف زمانوں اور صدیوں
میں پوری بشریت کے اختلافِ فکر و ذوق کے باوجود، آںحضرت(ص) کی راہ پر چلانے والے
اور ان کے دین کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔
امام(ع)، مسلمانوں کے نزدیک عترت طاہرہ(ع) کی منزلت کی وضاحت پر ہی بس نہیں کرتے
بلکہ فرماتے ہیںکہیہ خود عترت طاہرہ(ع) کے محور و سردار ہیں اور پھر اپنی اس اہم ذمہ¬داری
کی طرف اشارہ کرتے ہیںجسے خدا و رسول(ص) نے آپ کے سپرد کیا ہے کہ آپ اسے
لگوں کےدرمیان نبھائیں اور اسے ترک نہ کریں۔
آپ فرماتے ہیں :
تو تم کہاں جارہے ہو اورتمہیں کدھر موڑا جارہا ہے حالانکہ ہدایت کے جھنڈے اور بلند نشانات ظاہر
و روشن ہیں اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوںاِدھر اُدھر بھٹک
رہے ہو جبکہ تمہارے نبی(ص) کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے
پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ ذکر خیر اور صدق گفتار سے ہم آہنگ ہیں لہذا انہیں بھی قرآن
کے مانند محترم جانو! اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کےسرچشمہ ہدایت پر اترو۔
اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ ( انہوں نے فرمایا) ہم میں سے جو مرجاتا ہے
وہ مردہ نہیں ہے۔ اور ہم میں سے ( جو بظاہر مرکر) بوسیدہ ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں
بوسیدہ نہیں ہے۔ جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس
لیے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ اور نا آشنا ہو۔
( جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو) اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو۔ وہ میں
ہوں۔ کیا میں نے تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر
( اہل بیت(ع)) کو تم میں نہیں رکھا ( چھوڑا) ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان
کا جھنڈا گاڑا۔ حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے
پہنائے۔ اور قول و عمل سے حسن سلوک کا فرش تمہارے لیے بچھا دیا اور تم
سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔
جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں۔ اس میں اپنی
رائے کو دخل نہ دو۔ ( نہج البلاغہ⁄۸۷)
محترم قارئین ! اگر امام علی(ع) کے کلام پر توجہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود حدیث ثقلین کی تفسیر ہیں۔ وہی حدیث جسے اہل سنت حضرات نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔
پیغمبر(ص) نے تمہارے درمیان وہی چیزیںچھوڑی ہیںجو گزشتہ انبیاء اپنی امتوں کے درمیان
چھوڑا کرتے تھے اس لیے کہ وہ لوگوں کو راہ روشن اور نشان محکم قائم کیے بغیر یوں ہی
بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر(ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم
میں چھوڑی ہے اس حالت میںکہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام واجبات و مستحبات،
ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مطلق ومقید، محکم و متشابہ کو
واضح طور پر بیان کردیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کردی اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میں
کچھ آیتیں وہ ہیں جن کا جاننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے
بندے ان سے واقف نہ رہیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا واجب
ہونا ثابت ہے لیکن حدیث میں اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔ کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا وجوب
سنت میں واجب ہے اور اس پرعمل نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آیندہ میں ان کا وجوب برطرف ہوجاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہےکچھ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لیے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیںکچھ اعمال ایسے ہیں جن کاتھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ( نیج البلاغہ⁄خطبہ۱)