امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اہل تشیع (دو)نمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر کیوں پڑھتے ہیں؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

سورہ بنی اسرائیل نمبر ۷۱، آیت نمبر ۸۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
”(اے رسول) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز (ظہر و عصر اور مغرب و عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی) کیوں کہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوں کی) گواہی ہوتی ہے۔“(قرآن الحکیم ۷۱-۸۷)


اہل تشیع (دو)نمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر کیوں پڑھتے ہیں؟

شیعہ حضرات روزانہ کی پنجگانہ نمازیں واجب مانتے اور جانتے ہیں۔ اگرچہ وہ اکثر ظہر اور عصر کی نماز میں اکٹھا ملا کر ظہر کی نماز کے اول وقت سے نماز عصر کے آخری وقت تک پڑھتے ہیں۔ وہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کو بھی اسی طرح ملا کر پڑھتا ایک بعد دیگرے پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔
یہ عمل قرآن کریم اور مستند احادیث کے عین مطابق ہے۔
حنفی فقہ کو چھوڑ کر، سنّی فقہ اس کی اجازت دیتا ہے کہ واجب نمازوں کو ملا کر پڑھا جاسکتا ہے۔ (انعام، بیان السلاطین)۔ اگر حالات موافق نہ ہوں جیسے۔ بارش، سفر،خوف اور دوسرے ہنگامی حالات میں۔ حنفی فقہ واجب نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ سوائے دوران حج المذدلفہ میں۔
مالکی شافعی اور حنبلی فقہ اس بات پر متفق ہے کہ سفر میں واجب نمازوں کو ملاکر پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن اور دوسرے وجوبات پر آپس میں اختلاف ہے۔
شیعہ کا جعفری فقہ اس بات کی قطعی اجازت دیتا ہے کہ واجب نمازوں کو کسی خاص وجہ کے بغیر ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

اوقات نماز بروئے قرآن مجید

قرآن کریم کے مشہور مفسّر امام فخر الدین رازی نے سورہ نمبر ۷۱، آیت ۸۷ کے بارے میں لکھا۔ اور ہم یہ مانتے ہیں کہ اندھیرا (غسق) اس وقت کو مراد یعنی جب اندھیرا پہلے پہل ظاہر ہوتا ہے پھرغسق سے مراد مغرب کی ابتداء سے اس بنیاد پر تین اوقات :۱۔ دوپہر کا وقت ، ۲۔ مغرب کی ابتداء کا وقت اور ۳۔ فجر کا وقت۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوپہر کا وقت ظہر اور عصر کا ہے۔ اور یہ وقت ان دونوں نمازوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ابتدائے مغرب کا وقت مغرب اور عشاء کے اوقات ہیں۔ اسی طرح یہ وقت بھی ان دونوں نماز میں مشترک ہوجاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء کا ملانا ہر جگہ اور ہر موسم میں جائز ہے۔اگرچہ یہ ثابت ہے کہ ان نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جب کہ انسان اپنے گھر پر ہوں بغیر کسی خاص وجہ کے جائز نہیں مانا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ یہ نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ حالت سفر یا بارش میں ہو۔
(فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، جلد ۵، صفحہ ۸۳۴)
ہم آگے چل کر یہ ثابت کردیں گے کہ بغیر کسی خاص وجہ کے بھی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یہ تو ظاہر ہوگیا ہے کہ واجب نمازوں کے اوقات صرف تین ہی ہیں۔
۱۔ دو فرض نمازوں کے اوقات: دوپہر میں ظہر اور عصر نمازوں کے لئے جو ان دونوں میں مشترک ہے۔
۲۔ اور دو فرض نماز مغرب اور عشاء کے لئے لہٰذا غروب آفتاب شام اور رات میں جو کہ ان دونوں میں مشترک ہے۔
۳۔ اور نماز فجر کا وقت صبح ہے۔ جواس کے لئے مخصوص ہے۔

کیا پیغمبر (وں) نے ملا کر نماز میں پڑھیں۔

ابن عبّاس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مدینہ منوّرہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتیں یعنی دوپہر اور سہ پہر کی ظہر اورعصر کی نمازیں (آٹھ رکعت) اور شام اور رات کی نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (سات رکعت کو) ایک ساتھ پڑھیں۔
(صحیح بخاری (انگریزی ترجمہ) جلد ۱، کتاب، ۰۱، نمبر ۷۳۵، صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوةٰ، کتاب ۴ باب ۰۰۱، نمازوں کا ملانا، جب وہ شخص وطن میں ہو۔ حدیث نمبر ۲۲۵۱)
عبداللہ بن شقیق نے بتایا کہ ابن عباس ہم لوگوں سے دوپہر میں ایک دن مخاطب ہوئے (دوپہر کی نماز کے بعد) حتّٰی کہ سورج ڈوب گیا اور تارے نکل آئے اور لوگ کہنے لگے نماز، نماز ، بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور نہ وہ ڈھیلا پڑا اور نہ ہی واپس ہوا لیکن وہ نماز نماز پکارتا رہا۔
ابن عباس نے کہا تم اپنی ماں سے محروم ہوجاؤ۔ کیا تم ہم کو سنّت سکھا رہے ہو میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو نمازوں کو ایک ساتھ ملا تے ہوئے دیکھا ہے دوپہر کی نماز (ظہر) اور سہ پہر کی نماز (عصر) کو اور شام کی نماز مغرب اور ات کی نماز عشاء کو۔
عبداللہ ابن شقیق نے کہا کہ میرے دل میں کچھ شک ہوا۔ چنانچہ ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس بارے میں دریافت کیا۔ اور انھوں نے اس کی تصدیق کردی۔
(صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوة، جلد ۴، باب ۰۰۱، نمازوں کو ملانا جب نمازی ٹھہرا ہوا ہو (وطن میں ہو) حدیث نمبر ۳۲۵۱، ۴۲۵۱)

مگر کیا یہ سفر،خوف یا بارش کی وجہ سے تھا؟

رسول خدا (ص) کی کئی حدیثیں اس بات کی مظہر ہیں کہ آپ نمازوں کو ملا کر اکٹھا پڑھا کرتے تھے بغیر کسی خاص وجہ کے۔
رسول اللہ(ص) نے مدینہ کے قیام کے دوران، نہ کہ سفر میں، سات اور آٹھ رکعتیں ملا کر پڑھیں (یہ ظاہر کرتا ہے کہ ۷ رکعت مغرب اور عشاء کی ملاکر اور رکعت ظہر عصر کی ملا کر پڑھیں۔)
(احمد بن حنبل ، المسند، جلد ۱، صفحہ ۱۲۲)
رسول خدا (ص) نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملاکر اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ملا کر ہی پڑھا بغیر کسی خاص وجہ کے نہ تو خوف کا موقع تھااور نہ ہی سفر میں تھے۔
(ملک ابن انس، الموطّہ، جلد ۱، صفحہ ۱۶۱)
بے شک بعض احادیث میں ہمیں بتا گیا ہے کہ نبی اللہ کا یہ عمل خاص کر اپنی امت کی سہولت اور آسانی کے لئے تھا۔
ابن عباس نے ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ کا ظہر اور عصر کی نمازوں کا ملانا اور غروب آفتاب کی نماز کو رات کی نماز کا ملا کر پڑھنا مدینہ منوّرہ میں کسی خاص وجہ جیسے خوف و ڈر یا خطرہ اور بارش کے تھا۔
اور ولی# کے ذریعے بیان کی گئی حدیث ان الفاظ میں ہے ”میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ کس چیز نے رسول اللہ کو ایسا کرنے کے لئے اکسایا۔ انھوں نے بتایا تاکہ ”رسول اللہ کی امّت کوغیر ضروری تکلیف اور سختی نہ محسوس ہو۔“
(صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصّلوٰة ، جلد ۴،باب ۰۰۱، نمازوں کا ملا کر پڑھنا جبکہ متوکن ہوں۔ حدیث نمبر ۰۲۵۱، سنن الترمذی جلد ۱، صفحہ ۶۲)
اللہ کے پیغمبر (ص) نے دو پہر اور سہ پہر (ظہر اور عصر) کی نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر مدینہ منوّرہ میں پڑھیں جب کہ خطرہ یا خوف کا کوئی محل نہیں تھا اور نہ ہی بارش کا وقت تھا۔ ابو زبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے دریافت کیا (جو کہ ایک محدّث تھے) کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا اورانھوں نے بنایا کہ رسول اللہ چاہتے تھے کہ ان کی امت میں کسی کو غیر ضروری تکلیف نہ ہو۔
(صحیح مسلم، انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوٰة، جلد ۴، باب ۳، نمازوں کو ملا کر پڑھنا، جب کہ وہ ساکن ہو، حدیث نمبر ۶۱۵۱)

اگرچہ اس کی اجازت ہو پھر بھی کیوں عمل کریں۔

کوئی یہ نہیں کہتا کہ ظہر اور عصر کی نمازیں یا مغرب اور عشاء کی نماز میں الگ الگ نہیں پڑہی جاسکتی ۔ یہ نمازیں الگ یا ملا کر ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں۔
لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کے رسول کا یہ عمل کہ ان نمازوں کو ملا کر پڑھتے اس میں نہ صرف رسول کا اپنا عمل بلکہ پروردگار عالم کی بھی ایما اس میں شامل ہے۔ تاکہ امت مسلّمہ کو آسانی اور سہولت حاصل ہو۔
﴿ان ہی اچھی وجوہات کی بنا پر شیعوں میں ملاکر نماز پڑھنے کا چلن ہوگیا۔﴾
عوام اکثر اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی ضرورتیں رہتی ہیں خاص کر ایسے ملک میں جہاں امّت مُسلمہ کے نماز پڑھنے اور عبادت کرنا مناسب اور صحیح وقت پر ممکن نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی آسانی ہے۔ بہت ساری ذمّہ داریاں اور کام ایسے ہوتے ہیں لگاتار اور مسلسل ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع کے لئے ان کی آسانی غیر ضروری شدّت کو ہٹانے اور دونوں وقتوں کی نماز پڑھ سکنے کی آسانی کے لئے ایک ساتھ نماز ادا کرنے میں کتنی سہولت ہوتی ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
جب لوگ دور اور نزدیک سے ایک وقت نماز کے لئے نکال سکتے ہیں تو اسی وقت دونوں نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے کہ اس کی اجازت ہے۔
اور وہ وقت جماعت کا ہوتو دونوں نماز یں باجماعت مل جاتی ہیں۔ جس کی اپنی اہمیت اور بے انتہا ثواب ہے۔
اس لئے شیعہ حضرات دو نمازوں کو ایک وقفہ میں پڑھتے ہیں جس کی میعاد محدود نہیں بلکہ نسبتاً نہیں ہے۔ (مقررہ اوقات کے درمیان)
یہ اکثر دیکھا گیا ہے۔ اہل سنّی حضرات جو جمعہ کی جماعت میں بڑی پابندی سے اکٹھا ہوتے ہیں۔ لیکن عصر کی نماز باجماعت اکثر نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر۔
لیکن شیعہ حضرات جمعہ کی جماعت میں شامل رہتے ہیں اور چونکہ عصر کا وقت بھی ہوجاتا ہے اس لئے باجماعت اس نماز کو بھی پڑھ کر ثواب کمالیتے ہیں۔
اس حقیقت کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیئے کہ عام طور پر سنّی حضرات اس عمل پر قائم نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس پر قائم رہیں۔ اور سنّت رسول کو زندہ رکھیں۔
ہمیں اپنے بچوں اور دوسرے مسلم حضرات پہ زور دے کر کہنا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملا کر نہ صرف جائز ہی ہے۔بلکہ عین سنّت رسول ہے۔

حاصل کلام

ظہر ، عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملاکر ایک ساتھ پڑھنا نہ صرف قرآن حکیم کے عین مطابق ہے۔ بلکہ سنت رسول اور احادیث کی روشنی میں جائز اور حکم کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ یہ اللہ اور رسول کی طرف سے امت کی سہولت کے لئے ہے۔
اہل سنّت کے ان حدیثوں اور اللہ کے نہ ماننے سے ہماری عبادت اور زندگیوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا ہے۔
جیسا کہ مشہور سنّی عالم اور صحیح مسلم کے مفسر النوائی لکھتے ہیں۔
”اگر کوئی سنّت کو مُسلّم الثبوت مان لیتے ہیں۔ اس کو اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ کچھ لوگ یا سبھی لوگ اس حدیث کو نہیں مانتے ۔“
(انوائی: شرح صحیح مسلم (بیروت ۲۹۳۱، ہجری) جلد صفحہ ۶۵)

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک